کسی بھی خبر یا سرکاری اعلان کو جلد از جلد سارے ہندوستان میں پھیلانے کا سب سے آسان اور پر اثر ذریعہ ریلوے کے پلیٹ فارم ہی ہوتے تھے۔

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 107
کبھی کبھار اس چھوٹے سے اسٹیشن کا اداس سا پلیٹ فارم کسی فلم یا ٹیلیویژن کے ڈائریکٹر اور اس کی ٹیم کو اتنا پسند آجاتا تھا کہ وہ اس لوکیشن پر اپنا سیٹ لگا لیتے ہیں اور پھر اس فلم یا ڈرامے کے ہیرو اور ہیروئین کے ملن یا وچھوڑے کے جذباتی لمحات یہاں فلم بند کر لیتے ہیں۔
جب ایسی شوٹنگ ہو رہی ہوتی ہے تو پلیٹ فارم پر موجود مسافروں کے علاوہ آس پاس کے رہائشی بھی یہ کھیل تماشہ دیکھنے وہاں آ پہنچتے۔ ایسے موقع پر ڈائریکٹر کسی تھکی ہاری پسنجر گاڑی کے ڈرائیور اور گارڈ کی منت سماجت کرکے کچھ دیر کے لیے گاڑی کو دھیمی رفتار میں چلانے کا کہتا ہے تاکہ بچھڑنے کے اس منظر کو زوم کرکے پہلے قریب اور پھر دور سے دکھایا جا سکے۔
اس سین کی عکس بندی مکمل ہو جانے کے بعد، گاڑی لمحے بھر کے لیے اسٹیشن سے باہر رکتی ہے اور ٹیم وہاں پہنچ کر اپنے اداکاروں کو اتار کر واپس لے آتی ہے، اور گاڑی رفتار پکڑ کر اپنی راہ لیتی ہے۔ یوں ایسی چھوٹی چھوٹی ثقافتی سرگرمیاں محکمہ ریلوے کے تعاون سے تکمیل پا جاتی ہیں۔ اب آپ خود سوچیں کہ ایسا رومانوی ماحول کسی طور بھی لاری اڈے یا ائرپورٹ پر فلمایا جانا ممکن ہے۔
ثقافتی سرگرمیاں اور تفریح
یوں بھی ہوتا ہے کہ چھوٹے سے اسٹیشن پر محفلوں میں ناچ گانے والے بھی آجاتے ہیں اور اپنی مطلوبہ گاڑی کے وہاں پہنچنے تک پلیٹ فارم پر ہی وقت گزاری کے لیے کچھ ہلکے پھلکے سْر اور ثقافت کے رنگ فضاؤں میں بکھیر کر خوش ہوتے ہیں، اور وہاں موجود مسافر بھی ان کی حوصلہ افزائی اور کچھ اچھا پیش کرنے پر ان کو داد تحسین دینے کے لیے موجود ہوتے ہیں۔
کسی کو ان کی کارکردگی اتنا پسند آجاتی ہے کہ وہ جیب سے ایک بڑا سا نوٹ بھی نکال کر ان کو دے دیتا۔
پلیٹ فارم کی حالت
عام حالات میں پلیٹ فارم پر مجموعی طور پر بہت امن اور سکون ہوتا ہے۔ جب گاڑی یہاں داخل ہوتی ہے تو ہر طرف ہلچل مچتی ہے اور لوگ ادھر اْدھر بھاگتے ہیں، اور اس کے رخصت ہوتے ہی یکلخت سکوت چھا جاتا ہے جو اگلی گاڑی کے آنے تک برقرار رہتا ہے۔
آج کل گاڑیوں کے نظام الاوقات تو بنتے ہیں لیکن ان پر بہت کم عمل ہوتا ہے۔ بغیر کسی عذر کے گاڑی کی آمد میں گھنٹوں کی تاخیر تو اب ایک معمول بن چکا ہے۔ اس لیے وہاں موجود لوگوں کو بھی علم نہیں ہوتا کہ ان کا یہ انتظار ابھی اور کتنا طول کھینچے گا۔
پلیٹ فارم پر سزا و جزا
آئیں آج آپ کو ایک ڈیڑھ صدی پیچھے لے چلتے ہیں اور پتہ لگاتے ہیں کہ انگریز سرکار اسٹیشنوں کے پلیٹ فارموں کو جن مقاصد کے لیے استعمال کرتی تھی، ایسا گھناؤنا خیال تو کسی شیطانی دماغ میں ہی آ سکتا تھا۔
مصروف پلیٹ فارم پر مسافروں کی ہلکی پھلکی اور معمول کی سرگرمیاں تو ہمہ وقت جاری رہتی ہیں، لیکن انگریزوں کی حکومت کے دوران پلیٹ فارم جیسی پرسکون اور پرامن جگہ کو بھی سیاست اور دہشت پھیلانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ ان دنوں خبر رسانی اور ابلاغ کے ذرائع اتنی ترقی یافتہ شکل میں موجود نہیں تھے، اس لیے کسی بھی خبر یا سرکاری اعلان کو جلد از جلد سارے ہندوستان میں پھیلانے کا سب سے آسان اور پر اثر ذریعہ ریلوے کے پلیٹ فارم ہی ہوتے تھے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔