کیا سندھ طاس معاہدے کو بچانے کے لیے امریکہ اور ورلڈ بینک کچھ کر سکتے ہیں؟

امریکہ اور ورلڈ بینک کی مداخلت کی امکان

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) سندھ طاس معاہدے کے مکمل خاتمے کو روکنے کے لیے امریکہ اور ورلڈ بینک مداخلت کرسکتے ہیں۔ یہ معاہدہ، جو 1960 میں طے پایا تھا، دریائے سندھ کے طاس کی چھ دریاؤں کے پانیوں کو تقسیم کرتا ہے، جس میں بھارت کو تین مشرقی دریاؤں (راوی، بیاس اور ستلج) کا کنٹرول حاصل ہے جبکہ پاکستان کو تین مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم اور چناب) کا حق دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بانی پی ٹی آئی کیلئے امریکی کانگریس ارکان کے خط پر سینیٹر شیری رحمان کا رد عمل آ گیا

ماہرین کی رائے

ڈان کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کے یکطرفہ اقدامات کے بعد عالمی بینک اور امریکہ خاموشی سے معاہدے کو بچانے کی کوشش کریں گے۔ واشنگٹن کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے ڈاکٹر حسن عباس نے خبردار کیا ہے کہ اگر بھارت نے پانی کے بہاؤ کو روکنے کی کوشش کی تو اس کے شدید انسانی نتائج نکل سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: آسٹریلیا کیخلاف پہلے ون ڈے کیلئے پاکستان نے پلئینگ الیون کا اعلان کردیا

پاکستان کا موقف

پاکستان کے سندھ طاس کمشنر سید مہر علی شاہ کا کہنا ہے کہ بھارت کا فیصلہ سیاسی نوعیت کا ہے اور اس کا فوری طور پر پاکستان کے حصے کے پانی پر کوئی اثر نہیں ہوگا کیونکہ بھارت کے پاس پانی روکنے کی مکصل بنیادی ڈھانچے کی سہولت موجود نہیں۔

حکمت عملی اور تجاویز

سابق واپڈا ممبر لطیف جاوید نے کہا ہے کہ پاکستان کو عالمی بینک سے رجوع کرنا چاہیے اور دیامر بھاشا، داسو اور مہمنڈ ڈیموں کی تعمیر کو تیز کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ معاہدے میں تنازعات کے حل کے لیے مستقل سندھ طاس کمیشن اور ثالثی کے طریقہ کار موجود ہیں۔

Categories: قومی

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...