دوستوں کا ذکر: انداز مستانہ یا ذکر دیوانہ

مصنف کی تفصیل
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 151
یہ بھی پڑھیں: بہاولپور میں شوہر نے مبینہ طورپردوسری بیوی کے ساتھ مل کر پہلی کو قتل کردیا
میٹرک کے بعد کی کہانی
میٹرک کے بعد میرے بچپن کا سب سے عزیز دوست آغا بابر سعید اور خرم حفیظ ماڈل کالج ماڈل ٹاؤن داخل ہوئے۔ یہ دونوں پڑھائی میں اتنے اچھے نہ تھے۔ بابر کے والد انکل آغا سعید کسٹم میں سپرنٹنڈنٹ کی پوسٹ سے ریٹائر ہوئے تھے۔ پرانے دور کے وضع دار انسان اور اس نسل سے تھے جو اب نا پید ہو چکی ہے۔ آغا شورش کاشمیری کے بڑے دوست اور دور ایوبی میں شورش صاحب کئی روز ان کے ہاں چھپے رہے تھے۔ خرم کے والد شیخ محمد حفیظ بڑے رحم دل، پیار کرنے والے نیک انسان تھے۔ لوہے کے کاروبار سے منسلک تھے اور لنڈے بازار میں لوہے کا بڑا گودام تھا۔ ہم سب سے بہت پیار کرتے تھے لیکن اپنے چھوٹے بھائی شیخ محمد بخشی سے انتہا کا۔ لیکن جب وقت آیا تو وہی چھوٹا بھائی ان کے کسی کام نہ آیا تھا۔ شاید یہی زندگی کی ریت ہے جس پر سب سے زیادہ مان ہو وہی دغا دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں VIVO V50 5G Lite لانچ ہو گیا۔۔ قیمت اور دیگر تفصیلات جانئے
دوستی کا ذکر
انداز مستانہ یا ذکر دیوانہ؛ میں ایف سی کالج آ گیا۔ یہاں نئی دوستیاں بھی قائم ہوئیں لیکن پرانے دوست ہی جانی اور مانی ہوتے ہیں اور یہی فارمولا ہم دوستوں میں بھی ہے۔ دوستوں کا ذکر "انداز مستانہ کہہ لیں یا ذکر دیوانہ کہہ لیں۔" یہ محبت کی بے لوث کہانیاں ہوتی ہیں، آنسوؤں کے بغیر، لالچ کے بغیر البتہ ان کے ذکر بغیر زندگی کی کہانی ادھوری ہوتی ہے۔ کس کس کے نام کس کس کے نقش یاد کروں۔۔ ان سب کو یاد کرتے بس یہی زبان پر آیا ہے؛
یہ بھی پڑھیں: 56 Pakistani Prisoners Return Home After Years in Sri Lanka
یادیں اور احساسات
آج کی رات نہ جانے کتنی لمبی ہو گی
آج کا سورج شام سے پہلے ڈوب گیا ہے۔
یادوں کی انجمن میں کیسی ہوا چلی
اک دوسرے کی لو پہ لپکنے لگے چراغ
بچپن کی یادیں
بچپن کی یادیں میں مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ہم سبھی بہن بھائی ماں باپ کے فرماں بردار تھے۔ اس کے علاوہ میرے حافظے میں جو کچھ تھا میں نے آپ کے سامنے خالی کر دیا ہے۔ اس میں بناوٹی، تنوع اور جھوٹ بالکل نہیں ہے۔ وہ دور تنوع اور بناوٹ سے پاک تھا۔ معاشرے میں سچ تھا۔ حق بات کہنے والے تھے۔ مروت تھی۔ دید لحاظ تھا اور معاشرے کا بگاڑ ابھی شروع نہ ہوا تھا۔ لوگوں کی اکثریت اندر باہر سے ایک جیسی تھی۔ میں ان خوش نصیبوں میں سے ہوں جنہوں نے اُس اچھے وقت کے ڈوبتے سورج کو دیکھا۔ اُس ڈوبتے سورج کی پرچھائیوں سے طلوع ہوتے نئے زمانے میں بھلے وقت کی یادیں لئے چلتے ہیں۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔