یہ سب اُس دور کی باتیں ہیں جب زندگی میں عجیب سا سکون تھا، دن کی لڑائی شام تک دوستی میں بدل جاتی تھی، رشتے، تعلقات، دوستی سبھی خالص تھیں

مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 152
کیا آپ بھی بوڑھے ہیں؟
اگر آپ نے لکڑی کے لٹو چلائے، سائیکل کے ٹائر کو چھڑی سے گلیوں میں گھمایا، دو پیسے کا سکہ دیکھا، استاد سے سلیٹ اور سلیٹی پر سوال حل کرائے، عاد اعظم نکالا، پٹھو گرم کھیلا، سکول کی آدھی چھٹی کا لطف اٹھایا، تختی کو گاچی لگائی، غلے میں پیسے جمع کئے، میلے میں بیل دوڑ اور کبڈی دیکھی، گرامو فون پر ریکارڈ سنے، میلے میں تین دن سائیکل چلتی دیکھی، بارات میں پیسے لوٹے، دیواروں کو کوئلے سے کالاکیا، پانی کے ٹب میں موم کی کشتی چلائی، کاغذ کے جہاز اڑائے، سرکاری ڈسپنسری سے لال دوائی اپنی بوتل میں لی، سر کٹے انسان کی افواہ سنی، رسی لپیٹ کر لاٹو چلایا، ریڈیو پر کرکٹ اور ہاکی میچز کی کمنٹری سنی، جون جولائی کی تپتی دوپہر میں کرکٹ کھیلی، کچے آم توڑے، لالٹین میں مٹی کا تیل بھرا، مٹی کا یا سرسوں کے تیل سے جلایا، گیس لیمپ جلتے دیکھا اور جلایا بھی، گھر میں کلمی شورہ ڈال کر آئس کریم بنائی، لڈو کھیلی، تختی کے لئے قلم تراشا اور درمیان میں چاقو سے کٹ لگایا، ہولڈر استعمال کیا، زیڈ اور جی کی نب استعمال کی، سر پر جویں مارنے والا کڑواتیل لگایا، ماں سے سر کی جویں نکلوائیں، غلیل استعمال کی، ماں کے ہاتھوں آنکھوں میں سرما لگوایا، پرندوں کے گھونسلے تلاش کئے، بیری پر چڑھ کر بیر توڑے، بالٹی میں برف ڈال کر آم ٹھنڈے کیے اور کھائے (چوسے)، رف کاپی استعمال کی، کھلی، تنگ اور چار لائنوں والی کاپی اور کاغذ کے دستے استعمال کیے، برف خریدی، بلی مارکہ اگر بتی سلگھائی، والدہ، نانی، دادی کی ٹانگیں دبائیں، سردیوں میں ماں کے ہاتھ کا بنا سوئیٹر پہنا، لحاف میں گھس کر نانی دادی سے کہانیاں سنیں، قائد اعظم کے چودہ نکات ٹہل ٹہل کر یاد کیے، عمرو عیار، چچا چھکن، ظالم جادوگر کی کہانیاں سنیں، کاغذ کے اوپر کیل اور لوہے کے ذرات رکھ کر نیچے مقناتیس گھومایا، لمبے چھاپے سے پتنگ لوٹی، لاٹری میں کنگھی اور کئی بار چونی نکلی، رات کو آسمان کے تارے گنتے سوئے، سائیکل پر نئی گھنٹی لگوائی، ڈیموں (بھڑ) کو دھاگہ باندھ کر اڑاتے دیکھا، مالٹے کے چھلکے دبا کر دوستوں کی آنکھوں میں اس کے چھنٹے اتارے، جنون بوٹی دوستوں کی گردن کے پیچھے پھیری، بیٹھتے دوست کے نیچے سے کرسی کھنچی، لونگی (تہمند باندھی) پہنی، شہد کی مکھیوں پر پتھر مارا، ڈیموں نے کاٹا اور اس پر گرم لوہا پھیرا کہ ڈنگ کی تکلیف کم ہو، جلنے پر برنال لگایا، صبح سویرے لسی رڑکنے کی آواز سنی۔
یادیں اور نکتہ چینی
ہاں اگر سب کیا اور دیکھا ہے تو آپ بھی میری طرح بوڑھے ہو چکے ہیں کہ یہ سب اُس دور کی باتیں ہیں جب زندگی میں عجیب سا سکوں تھا، لوگ ہنسنے کی قدر سے واقف اور رونے کی لذت بھی جانتے تھے۔ دن کی لڑائی شام تک دوستی میں بدل جاتی تھی، رشتے، تعلقات، دوستی سبھی خالص تھیں۔ فریب کوئی بھی نہ تھا کہ سب ایک جیسے ہی تھے۔ موبائیل کے بغیر بھی سبھی رابطے میں تھے۔ سب کو پتہ ہوتا کون کس وقت کہاں ہے کہ سب کا نیٹ ورک ایک ہی تھا۔ محبت اور خلوص کا نیٹ ورک۔ اب نیٹ ورک بھی مختلف ہیں اور کون کہاں ہے کوئی جانتا بھی نہیں اور شاید جاننا چاہتا بھی نہیں۔ بس اپنی اپنی مصروفیت ہے۔ looking busy doing nothing والی بات بہت فٹ لگتی ہے۔ واہ رے زمانے تو کتنی تیزی سے نئے دور میں آن پہنچا ہے۔
نوٹ:
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔