دادا انبالہ اور پانی پت کے اسکولوں میں پڑھا چکے تھے، مردان خانے میں ملنے والوں کا تانتا بندھا رہتا جن میں ہندو، سکھ، مسیحی اور نچلی ذاتوں کے لوگ شامل تھے۔

مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 22
کتاب کی اہمیت
رانا صاحب نے دوستوں کے اصرار پر اپنے تجربات اور ان سے حاصل ہونے والے شعور کو عام کرنے کے لئے اپنی سوانح حیات لکھنے کا ایک بڑا کام انجام دیا ہے۔ ہم رانا صاحب کی اس ضخیم کتاب کو ایک اچھے دوست کی زندگی کے نشیب و فراز کے مطالعے کے علاوہ قیام پاکستان کے دنوں سے لے کر پاکستان کی 76 سالہ تاریخ کے اہم پہلوؤں کو سمجھنے اور عملی زندگی کے اسرار و رموز سے بھی آشنا ہونے کا ذریعہ پاتے ہیں۔ جو قارئین فلاحی اور سماجی کام کرنا چاہیں اور اس کام کو منظم اور مربوط انداز میں کرنے کے گر جاننا چاہیں، ان کے لئے رانا امیر احمد خاں کی یہ کتاب خاص طور پر بہت مفید اور دلچسپی کی حامل ہے۔
سوانح عمری: "امیر نامہ"
یہ سوانح عمری "امیر نامہ" کے نام سے شائع ہورہی ہے لیکن اس میں مصنف نے کسی امیر کبیر کی شان دکھانے کی بجائے اپنی سادگی اور بے تکلفی دکھانے پر توجہ دی ہے۔ ان کے "امیر نامہ" سے ان کا اخلاص بھرا غریبانہ اور مخلصانہ انداز نمایاں ہوتا ہے جو ہماری روح کو سرشار کرتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر شفیق جالندھری کا تبصرہ
یکم مارچ 2024ء
بھارت سے پاکستان ہجرت
خاندانی پسِ منظر
میری پیدائش 3 نومبر 1941ء کو ضلع انبالہ مشرقی پنجاب (موجودہ ہریانہ) کے ایک موضع دھین میں ہوئی۔ والد کا نام بشیر احمد خان اور دادا کا نام ماسٹر محمد شفیع خان تھا جو ضلع انبالہ کی معروف شخصیت تھے۔ میرے دادا کے بزرگ باغانوالہ (مورنڈا) تحصیل روپڑ ضلع انبالہ کے رہنے والے تھے۔ میرے دادا کے والد انگریز پولیس میں تھانیدار تھے، جن کا انتقال 35 سال کی عمر میں ہو گیا تھا۔ چنانچہ میرے دادا کی والدہ اپنے دو سالہ بیٹے (میرے دادا) کے ہمراہ اپنے میکے موضع دھین پور میں اپنے والدین کے پاس آبسیں۔
میرے دادا کے نانا نے دیگر عزیزوں کے مشورے کے ساتھ موضع مورنڈا، میرے دادا کی موروثی زمین جائیداد فروخت کر کے اس کے عوض موضع دھین میں میرے دادا کے نام سے زمین خرید لی۔ اس طرح ہمارا خاندان موضع دھین کا ہو کر رہ گیا لیکن پاکستان میں بڑا ہونے پر میں نے محسوس کیا کہ مورنڈا باغانوالہ کے ہمارے عزیز، جن میں ڈاکٹر اقبال نذیر کے والد گوجرہ میں رہائش پذیر، نذیر بی اے، لاہور علامہ اقبال ٹاؤن میں رحیم سٹور کے رانا اظہر عباس کے والد چودھری عبدالرحیم اور دیگر سب ہمیں اپنا خاندان بتاتے تھے اور ہمارے ساتھ محبت، شفقت اور اپنائیت کا مظاہرہ کرتے تھے۔
دادا کا پیشہ
میرے دادا ماسٹر محمد شفیع خان مسلم ہائی سکول انبالہ میں حساب (ریاضی) کے استاد تھے۔ ہوش سنبھالنے پر میں نے انہیں ریٹائرڈ دیکھا، وہ میری پیدائش کے چند مہینوں بعد 1942ء میں ریٹائرڈ ہو گئے تھے۔ انہوں نے سکول کے علاوہ راجپوت ہوسٹل کے 25 سال تک سپرنٹنڈنٹ کے فرائض بھی انجام دیئے۔ مردان خانے میں دادا سے ملنے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ ملنے والوں میں گاؤں کے مسلمانوں کے علاوہ ہندو، سکھ، مسیحی اور نچلی ذاتوں کے لوگ شامل تھے۔ دادا، جو کہ انبالہ کے علاوہ پانی پت اور دیگر سکولوں میں بھی پڑھا چکے تھے، اس لئے گاؤں کے دیگر مذاہب کے لوگ بھی ان سے اپنے رشتے ناتوں کے بارے میں مشورہ کیا کرتے تھے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔