ہمارے گھر میں نیم کے درخت کے ساتھ بھینس بندھی ہوتی تھی، رات کو دادی دودھ کو جاگ لگا دیا کرتی، صبح تک دودھ مزیدار دہی میں تبدیل ہو جاتا

مصنف کی ابتدائی یادیں
مصنف:رانا امیر احمد خاں
قسط:25
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں سیاحوں پر حملہ، حسبِ روایت بھارتی میڈیا نے من گھڑت اور جھوٹا پروپیگنڈا شروع کر دیا
زنان خانے کی کہانی
ہمارے گھر کے زنان خانے میں نیم کے درخت کے ساتھ ایک بھینس بندھی ہوتی تھی۔ جس کا دودھ دادی جان دوھیا کرتی تھیں۔ کبھی کبھی دادی مجھے گود میں لیکر بھینس کے دودھ کی دھاریں دلوایا کرتی تھیں۔ دودھ کو اْپلوں کی آگ پر کاڑھا جاتا تھا جو ہلکی آنچ پر گرم ہو کر شام تک گلابی ہو جایا کرتا تھا۔ اس دودھ پر جمی ملائی کی موٹی تہہ ہلکے پیلے رنگ کی ہوتی تھی جو کھانے میں بہت ہی مزیدار ہوتی تھی۔ رات کو دادی اس دودھ کو جاگ لگا دیا کرتی تھیں۔ صبح تک دودھ مزیدار دہی میں تبدیل ہو جاتا تھا۔ صبح سویرے دادی جان دودھ بلو کر مکھن نکالا کرتی تھیں۔ مکھن سے پراٹھے بنتے تھے۔ صبح کے ناشتے میں گرم گرم روٹی پر مکھن لگا کر کھانے کا بھی اپنا ایک مزہ تھا۔ اس دور میں چائے کا بہت زیادہ رواج نہیں تھا۔ یہی لسی مہمان نوازی کے کام آتی تھی۔ البتہ سردیوں میں چائے بھی پی جاتی تھی۔ غرضیکہ ہمارے گھر میں دودھ، دہی، مکھن، لسی، گڑ اور چینی کی بہتات تھی۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں زلزلہ
بچپن کی مہمات
میں پانچ ساڑھے پانچ سال کی عمر میں اپنی گھوڑی کو مردان خانے سے گلی میں نکالتا تھا۔ اسے بیل گاڑی کے ساتھ کھڑا کر کے اور خود بیل گاڑی پر چڑھ کر گھوڑی پر سوار ہوتا تھا۔ روزانہ اپنی زمینوں اور آموں کے باغ تک جانا شروع کر دیا تھا۔ راستے میں بہت خوبصورت وائلڈ لائف دیکھنے کو ملتی تھی۔ بندروں کے غول کے غول درختوں پر اچھل کود کرتے نظر آتے تھے۔ خوبصورت مور اور ہرن بھی دور سے دوڑتے پھرتے نظر آتے تھے۔ ایک مرتبہ ہرن کا گوشت بھی کھانے کا اتفاق ہوا جو کہ نرم اور ہلکی کھٹاس والا تھا۔ ایک مرتبہ ہماری زمینوں پر درمیانے سائز کا سانپ نکل آیا جسے فوراً مزارعوں نے ڈنڈے سے مار دیا۔ یہ میری زندگی میں پہلی دفعہ سانپ دیکھنے اور مارنے کا مشاہدہ تھا۔
یہ بھی پڑھیں: 22 سالوں میں 11 شوہروں کا قتل، ایرانی خاتون کے حیران کن کیس کی کہانی سامنے آگئی
دیہات کی سیر
بچپن میں مجھے اپنے بڑوں کے ساتھ آس پاس کے مختلف دیہات دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا۔ ان دیہات میں کاٹھا، ماجرا، پنجلاسہ، ساہہ، سڈھورا، سالاپور اور ساہا کے نام مجھے یاد ہیں۔ اس کے ساتھ دو شہروں انبالہ اور نرائن گڑھ جانے کا بھی موقع ملا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے والد صاحب کی پوسٹنگ ان شہروں میں ہوئی تھی۔ ہمارے ننھیالی گاؤں پنج لاسہ میں نانا کے آموں کے باغات تھے۔ جن میں آموں کی مختلف اقسام کے درخت تھے۔ میں چار، ساڑھے چار برس کی عمر میں امی کے ساتھ پنجلاسہ گیا ہوا تھا۔ ماموں مجھے آم کے باغات گھمانے لے گئے۔ اس دن اتنی شدید آندھی آئی کہ میں دھان پان سا بچہ آندھی میں اْڑ جاتا اگر ماموں مجھے نہ پکڑتے۔ آندھی میں اْڑ جانے کا خوف اور ماموں کی گود کا تحفظ مجھے آج بھی یاد ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اتنا کچا نہیں کہ دانیہ شاہ سے محبت کروں، ہمدردی میں شادی کی: حکیم شہزاد
ہاتھی کی سواری
کاٹھا ماجرا یا شاید ساہہ گاؤں جو میری ایک بڑی نانی (نانا کے بھائی کی پہلی بیگم) کا میکہ تھا۔ اس گاؤں میں کسی نے ہاتھی پال رکھا تھا جو گاؤں میں گھومتا پھرتا تھا۔ گاؤں کے بچے جب دل چاہا اْس پر سواری کیا کرتے تھے۔ مجھے بھی اس ہاتھی پر بٹھا کر جھولے دئیے گئے۔ مجھے ہاتھی پر بیٹھ کر بہت مزا آیا تھا۔
اختتام
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔