ساری ذمہ داریاں کمپیوٹروں کو سونپی جا رہی ہیں لیکن پاکستان میں سوائے چند بڑے اسٹیشنوں کے، ابھی تک پرانا سیمافورسسٹم ہی چل رہا ہے۔

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 116
دن کے وقت اگر ڈرائیور کو سگنل آرم متوازی حالت میں ملتا ہے تو اسے وہاں ٹھہر کر اس کے نیچے گرنے کا انتظار کرنا ہو گا جو سگنل کیبن والا ملازم اسٹیشن ماسٹر سے اجازت ملنے اور انٹر لاکنگ کا عمل مکمل کر کے ہی گرائے گا۔ جب سگنل آرم نیچے گرا ہوا ہوتا ہے تو ہر ایک کو علم ہو جاتا ہے کہ ابھی کچھ دیر میں یہاں سے گاڑی گزرے گی۔ انٹر لاکنگ اور سگنل ڈاؤن کرنے کے بعد بھی کیبن مین کھڑکی میں آکر آنے والی گاڑی کو دن میں سبز جھنڈی اور رات کو بتی لہرا کر آگے نکلنے کا اشارہ دیتا ہے۔ یورپ کے علاوہ اور بھی کئی ملکوں میں یہ نظام تھوڑا مختلف ہوتا ہے۔ پاکستان کے برعکس وہاں جب کسی گاڑی کو جانے کی اجازت دینا ہو تو سگنل آرم کا رخ نیچے کرنے کے بجائے اوپر آسمان کی طرف اٹھا دیا جاتا ہے۔
جدید سگنلنگ کے نظام
اب چونکہ الیکٹرونک اور کمپیوٹر سے کنٹرول ہونے والے سگنل آگئے ہیں جو سٹیشن کے کنٹرول روم میں بیٹھ کر ہی ایک خودکار نظام کے تحت سبز سرخ یا زرد کئے جا سکتے ہیں اس لیے اب سو برس پرانا نظام ختم کرکے یہ ساری ذمہ داریاں کمپیوٹروں کو سونپی جا رہی ہیں لیکن پاکستان میں سوائے چند بڑے اسٹیشنوں کے، ابھی تک پرانا سیمافورس سسٹم ہی چل رہا ہے۔
چھوٹے اسٹیشنوں کا نظام
برانچ لائنوں، چھوٹے اسٹیشنوں یا ہالٹ پر گاڑیوں کی اتنی تعداد نہیں ہوتی ہے، وہاں بس ایک دو پٹریاں ہوتی ہیں جن کا انٹر لاکنگ اور سگنل سسٹم ایک ساتھ ہی وہیں چبوترے پر لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ دونوں کو ایک ساتھ ہی فعال کر دیا جاتا ہے۔ بڑے اسٹیشنوں اور جنکشنوں کے کھمبوں پر کئی کئی سگنل آرم لگے ہوتے ہیں جن میں سے کچھ ذرا بلندی پر اور باقی نیچے۔ ہر سگنل آرم کا مقصد اور مطلب مختلف ہوتا ہے جو ریلوے والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔ اس بارے اتنی گہری تکنیکی معلومات دینا کم از کم اس عام اور ہلکی پھلکی کتاب میں دینا مناسب نہیں اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے۔
ٹوکن سسٹم
جس علاقے میں صرف ایک ہی ریل کی پٹری یعنی سنگل لائن ہو، اور آنے جانے والی گاڑیاں اْسی کو استعمال کرتی ہوں تو یہ انتہائی ضروری ہو جاتا ہے کہ جب تک کسی اسٹیشن سے نکلنے والی گاڑی با حفاظت اگلے اسٹیشن پر نہ پہنچ جائے، پیچھے سے دوسری گاڑی کو روانہ نہ کیا جائے۔ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ گاڑی ایک اسٹیشن سے نکلے اور کہیں آگے جا کر بیچ میدان میں خراب ہو کر کھڑی ہوجائے، اور اسٹیشن ماسٹر اس مفروضے پر کہ پہلے سے روانہ کی گئی گاڑی اب اگلے اسٹیشن پر پہنچ گئی ہو گی، دوسری گاڑی کو جانے کی اجازت دیدے تو ایسی حالت میں اس کا اگلی خراب گاڑی سے تصادم ہونے کا خدشہ ہوتا ہے جس سے جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے۔
ایسا ہی کچھ حادثہ آمنے سامنے آ جانے والی گاڑیوں کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے جو پٹری کو خالی سمجھ کر چل پڑتی ہیں۔ اس قسم کے ٹکراؤ کو روکنے کے لیے ایسا نظام بنایا گیا تھا کہ جب تک جانے والی گاڑی کا ڈرائیور اگلے اسٹیشن پر نہ پہنچ جائے اس لائن پر کوئی دوسری آنے یا جانے والی گاڑی کو روانہ نہ کیا جائے۔ اسی خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوئی سو برس پہلے ٹوکن سسٹم کا نفاذ ہوا تھا اور اس کو جاری کرنے کے لیے باقاعدہ ایک طریقہ کار وضع کیا گیا تھا جس کے لیے ایک خصوصی مشین بھی بنوائی گئی تھی جس کو نیل بال ٹوکن سسٹم مشین کہتے ہیں۔ ایسی مشین ہر اسٹیشن پر نصب کی جاتی تھی اور ان کا آپس میں ٹیلیفون لائن کے ذریعے رابطہ رہتا تھا۔
موجودہ اور اگلے اسٹیشن ماسٹروں کے بیچ میں نہ صرف مشین بلکہ ٹیلی فون پر بھی مختصر سی بات ہو سکتی تھی۔ اس مشین کی آمد سے قبل اسٹیشن ماسٹر اگلے اسٹیشن ماسٹر کو مورس کی پر پیغام دیا کرتا تھا اور اس کی طرف سے لائن کلئیر ہونے کے تصدیق کے بعد وہ ایک دستخط شدہ تحریری اجازت نامے سے گاڑی کو اپنے اسٹیشن سے اگلے اسٹیشن تک جانے کی اجازت دیتا تھا۔ تاہم بعض اوقات کوئی ابہام رہ جاتا تھا یا پیغام سمجھنے کے دوران کچھ غلط فہمی ہو جاتی تھی تو گاڑیوں کے تصادم کا خطرہ بھی بڑھ جاتا تھا۔
تصدیق کے اس طریقے کو با ضابطہ اور کسی حد تک بشری غلطی سے مبرا اور خودکار بنانے کے لیے ٹوکن کا یہ نظام رائج کیا گیا تھا۔ جو آج بھی دنیا کے کچھ ملکوں میں رائج ہے جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ یہ سارا نظام بہت مربوط ہے اور کچھ یوں کام کرتا تھا:
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔