موجودہ ہزیانی جنگی تعطل سے کیسے نکلا جائے؟

تحریر: امتیاز عالم

ابھی تک تو یہ صرف جنگی میڈیا کی دو طرفہ ہزیانی جنگ ہے جو پہلگام سے 5 کلومیٹر دور پہاڑی چراگاہ بائیسارَن میں 26 معصوم سیاحوں کی لاشوں پر ہونے والی آہ وزاری پہ جاری ہے، اور دو بےخبر نیوکلیئر حریفوں کے درمیان سخت الزام تراشی اور بھارت کی جانب سے پاکستان کو صفحۂ ہستی سے مٹنانے اور پاکستان کی طرف سے دندان شکن جواب دینے کے الٹی میٹموں کے مقابلے کے بیانیوں کی صورت چلے جارہا ہے۔ بیانیوں کا نفرت انگیز مقابلہ ہے بھی تو اس مخصوص دلخراش واقعے میں کسی ثبوت کے بغیر دہشت گردی کے پیچھے ہمیشہ کی طرح مبینہ طور پر پاکستان کا ہاتھ قرار دیئے جانے، اور اس کے مقابلے میں وزیر اعظم مودی کی نام نہاد فلیگ شپ آپریشن کی بغیر کسی معقول وجہ کے ملوث ہونے کی الزام تراشی پھوکے فائر ثابت ہوئیں۔ دونوں مفروضاتی بیانیئے حقائق کی زمین پہ کھڑے نہ رہ سکے۔ اس جنگی جنونیت کے ہاتھوں قتل ہوئی بھی تو سچائی اور تعصب سے پاک آزاد صحافت۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی، سگی بیٹی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانیوالے درندہ صفت ملزم کو 10 سال قید کی سزا

نفرت انگیزی اور دہشت گردی

بر صغیر پاک و ہند کی دائمی نفرت انگیزی، جاری دہشت گردی، اور پراکسی جنگوں کی بھرمار میں خود احتسابی اور حقیقت پسندانہ جائزے کی کوئی گنجائش کہاں بچنی تھی۔ اگر ہندوتوا کے منصوبے کو ایک اور موقع ملا ہے، تو یہ موقع دہشت گردوں نے خود فراہم کیا ہے جنہوں نے دو درجن سے زائد انسانوں کا فرقہ وارانہ قتل کر کے یہ خونی مثال قائم کی۔ یہ خوفناک فرقہ وارانہ دہشت گردی نہ صرف بھارت میں جاری مذہبی تقسیم کو مزید ہوا دینے کے لیے کافی تھی، بلکہ اس نے برصغیر میں بھی کشیدگی کو بڑھایا۔ اس واقعہ سے 6 برس پہلے 14 فروری 2019 کو پلوامہ میں دہشت گردی کے واقعے کے 12 دن تک غور و خوض کے بعد ایک غیر مؤثر بھارتی جوابی فضائی حملہ پاکستان کے اندر بالا کوٹ پر کیا گیا، جسے دونوں افواج نے خوش اسلوبی سے سنبھالا۔

یہ بھی پڑھیں: جنگی جنون کا منہ توڑ جواب، بھارتی پرچم بردار بحری جہازوں کا پاکستانی بندرگاہوں پر داخلہ بند کردیا گیا

مودی حکومت کی الجھن

مودی حکومت خود ایک بڑی الجھن میں پھنس گئی ہے کہ بالا کوٹ کی مضحکہ خیز طور پر ناکام مہم جوئی سے آگے جایا جائے تو کیسے اور کہاں زور آزمائی کی جائے اور بغیر کسی بڑے جنگی تصادم کا خطرہ مول لیے بغیر؟ اکتوبر میں بہار اسمبلی کے اہم انتخابات کے پیش نظر، وزیر آعظم مودی نے یہ ذمہ داری افواج کے سربراہوں کے کندھوں پر ڈال دی ہے کہ وہ دہشت گردوں کو "کچل کر رکھ دیں"۔ ایک بار پہلے بھی اندرا گاندھی نے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں غرق کرتے ہوئے پاکستان کو توڑنے کا فیصلہ فیلڈ مارشل مانک شا کے حوالے کیا تھا جنہوں نے 1971ء میں مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کی پاکستان سے جنگ آزادی کی پشت پناہی کر کے بغیر کسی بڑے یدھ کے کر دکھایا تھا۔ باقی تمام جنگیں اور سرحدی جھڑپیں پہلی کشمیر جنگ کی جزوی کامیابی کے سوا ادھورے جنگی ٹکراؤ ہی رہے۔

یہ بھی پڑھیں: کیا بھارتی کرکٹ میں مشہور کھلاڑیوں کا دور ختم ہو رہا ہے یا ان کا ‘آخری خواب’ حقیقت بنے گا؟

ایٹمی ہتھیاروں کا چیلنج

"محدود جنگوں" کی کوششوں، جیسے کارگل مہم جوئی اور نام نہاد "سرجیکل اسٹرائیکس"، کو جنوبی ایشیاء میں ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کن موجودگی نے روکے رکھا۔ اب تک خطرناک حد تک پھیلتے ہوئے ایٹمی ہتھیاروں نے کام کیا بھی تو اتنا کہ دونوں ملکوں کو آپے سے باہر نہ ہونے دیا، گو کہ ایٹمی ہتھیاروں کے بٹن پر بار بار حریفوں کا ہاتھ جاتا رہا۔ مگر کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ کسی ممکنہ یا حادثاتی ایٹمی تصادم کو روکا جاسکے۔ پاکستان کے سیاستدان تو اصرار کرتے ہیں کہ ہم نے ایٹمی گولے اور میزائل بیاہ شادیوں میں آتش بازی کے لیے نہیں بنائے۔ چونکہ دشمنی گہری ہے، اس لیے برصغیر میں ایٹمی ہتھیاروں کا خطرہ اور ایٹمی تصادم کی پیشین گوئی مشکل تر ہو گئی ہے۔ برصغیر کی اندھی ایٹمی دوڑ امریکہ اور سوویت یونین اور اب روس کے مابین جاری ایٹمی اسلحہ کی دوڑ سے بڑی مختلف تھی۔ دنیا میں کوئی اور ایٹمی حریف (سوائے دوسری عالمی جنگ کے آخری دور کے امریکہ کے) اتنی کھلم کھلا ایٹمی ہتھیاروں کی نمائش نہیں کرتے جیسا کہ یہ دونوں دشمن ایک گہرے باہم جڑے ہوئے خطے میں کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سکھ یاتریوں کیلئے پاکستان آمد پر کوئی ویزہ فیس نہیں ہوگی، وفاقی وزیر داخلہ

پاکستان اور بھارت کی موجودہ صورتحال

جب بھارتی حکومت کسی واضح مقصد اور دائرہ کار کا تعین کیے بغیر غیر متوقع جارحیت کا اعلان کر رہی ہے، وہیں پاکستان کی فوجی قیادت، جو طالبان کی دہشت گردی اور بلوچ مزاحمت سے دباؤ میں ہے، کسی بھی حملے کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے بہت ہی پرعزم اور تیار نظر آتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: طلاق کی افواہیں، مشیل اوبا کا موقف آگیا

خطرات اور مواقع

اب جبکہ دونوں ممالک اپنی اپنی انا کی اندھی گلیوں میں پھنس کے رہ گئے ہیں اور کھلی جنگ سے گریزاں بھی لگتے ہیں، پاکستان کو ایک بار توڑنے کے بعد، دونوں اطراف کے مقبوضہ کشمیر کے تنازعہ میں جاری جبری قبضے اور علاقہ گیری کی جنگ کیساتھ ساتھ، اب پاکستان کے شمال مغرب اور جنوب مغرب کی سرحدوں سے دخل اندازی اور اندرونی نوآبادیاتی غلبے کے خلاف نسلیاتی مزاحمت اور خلفشار کو ہوا دے کر کیا جارہا ہے۔ بھارت کو زیادہ سہل اور سستا لگتا ہے کہ وہ پاکستان میں مختلف قومیئتی تضادات اور اندرونی علاقائی اختلافات کو مزید ہوا دے۔ پاک-چین اسٹریٹیجک اتحاد کے دوہرے محاذ کا سامنا کرتے ہوئے بھارت کے لیے یہ پرکشش ہو سکتا ہے کہ وہ امارات اسلامی افغانستان، تحریکِ طالبان افغانستان اور تحریکِ طالبان پاکستان اور دیگر مذہبی دہشت گردوں کی پشت پناہی کرے۔ بھارت میں احمقانہ عقابی آوازیں پاکستان کو توڑنے کی بات کر رہی ہیں، لیکن اس کے نتائج پورے جنوبی اور وسطی ایشیاء کے لیے تباہ کن ہو سکتے ہیں اور نیوکلیئر پاکستان شدید تباہ کن ردِعمل دے سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ہوا میں تیر نہیں چلاتا، کل ہی بتادیا تھا بشریٰ بی بی آج رہا ہوں گی: فیصل واوڈا

ایک ممکنہ اسٹریٹجک راستہ

دوسرا اسٹریٹجک راستہ باہمی فائدے کا ہو سکتا ہے۔ 3 ایسے اہم عوامل جو بڑی جنگ کو روک سکتے ہیں:

  1. ایٹمی روک (ڈیٹرینس)
  2. ایک کثیر قطبی دنیا میں مختلف طاقتوں کی طرف سے "ہمت افزائی" کی کمی، جہاں کوئی واحد سپر پاور بھارت کی پشت پناہی نہیں کر رہی، جبکہ چین پاکستان کے ساتھ ضرور کھڑا ہے لیکن اپنے گرد ونواح میں جنگ نہیں چاہتا۔
  3. دونوں افواج کی قیادت کا حقیقت پسندانہ عسکری تجزیہ، جو حربی و جنگی حدود کو بڑھک باز سیاستدانوں اور آگ اگلتے میڈیا سے بہتر جانتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں سی ٹی ڈی کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ، دو دہشت گرد ہلاک

پہلگام دہشت گردی اور اس کے نتائج

پہلگام دہشت گردی اور اس کے بعد کی صورتحال سے نکلنے کا راستہ یہی ہے کہ کس طرح تصادم کی آخری حد سے بہت پیچھے ہٹا جائے؟ سب سے پہلے، دونوں فریق مؤثر ثالثوں کے ذریعے کشیدگی کو کم کرنے پر متفق ہوں تاکہ کسی بھی فوجی کارروائی سے بچا جا سکے۔ پہلگام دہشت گردی کی مؤثر تحقیقات کا کوئی قابل اعتبار طریقہ کار اپنایا جائے اور دہشت گردوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ بھارت اور پاکستان کو ہمیشہ کے لیے تمام پراکسی جنگوں کو بند کرنے اور ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف مل کر لڑنے پر اتفاق کرنا ہو گا۔ انہیں اپنے ماضی کے عمدہ معاہدوں جیسے سندھ طاس کا معاہدہ اور شملہ معاہدہ کو برقرار رکھنا ہو گا تاکہ اچھی ہمسائیگی کے تعلقات قائم رکھے جا سکیں۔ اب سب کو جنگ بازی اور دشنام طرازی کی کلہاڑی کو دفن کرنا ہوگا، ورنہ پھر نہ کہنا دیر ہوگئی۔

نوٹ

ادارے کا بلاگر کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں

Categories: بلاگ

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...