سراب سائے

تحریر:
محمد عاصم نصیر
یہ بھی پڑھیں: سمندر پار مقیم پاکستانیوں پر رقوم کی ترسیل پر ٹیکس کی افواہیں بے بنیاد ہیں: بیرسٹر امجد ملک
بیوروکریسی کی اہمیت
کسی بھی ملک کے انتظامی ڈھانچے میں بیوروکریسی کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ یہ وہ ادارہ ہے جو حکومتی پالیسیوں کو عملی جامہ پہناتا اور ریاستی مشینری کو رواں رکھتا ہے۔ عوامی خدمات کی فراہمی ہو یا قانون کے نفاذ کا معاملہ، ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی ہو یا قومی وسائل کی تقسیم، ہر شعبے میں بیوروکریسی کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔ اسی لیے اسے ریاست کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے، کیونکہ اس کے بغیر حکومتی نظام کھوکھلا اور بے اثر ہو جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: توشہ خانہ 2 کیس؛ بشریٰ بی بی کی ضمانت منسوخی کی درخواست پر نوٹس جاری
بیوروکریسی کے مسائل
لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب بیوروکریسی ذاتی مفادات، گروہی وفاداریوں، یا غیر قانونی دباؤ کی زد میں آ جائے تو وہی ادارہ جو ملکی ترقی کا ضامن ہوتا ہے، پسماندگی اور ناکامی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ جب فائلیں صرف رشوت کے عوض حرکت میں آئیں، جب عہدے سفارش سے ملیں اور جب میرٹ کی جگہ مصلحت لے لے، تو نظام میں بددلی، بےاعتمادی اور ناانصافی جنم لیتی ہے۔ ایسی بیوروکریسی عوام کو انصاف، سہولت اور ترقی دینے کے بجائے ان کے لیے ایک دیوار بن جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نصب العین عدل و انصاف پر مبنی ریاست کی تعمیر و ترقی تھا، وکلاء برادری کو غیر سیاسی پلیٹ فارم مہیا کرنے کا فیصلہ کیا تا کہ عوام کے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔
پاکستان میں بیوروکریسی کا چہرہ
بدقسمتی سے پاکستان میں بیوروکریسی کا یہی دوہرا چہرہ سامنے آتا رہا ہے۔ جہاں کچھ افسران اپنی دیانت داری اور کارکردگی کی مثال بنے، وہیں کئی ایسے بھی ہیں جنہوں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے نہ صرف اداروں کو نقصان پہنچایا بلکہ عوامی اعتماد بھی مجروح کیا۔ اقربا پروری، رشوت، سست روی اور سیاسی دباؤ نے بیوروکریسی کو اس کے اصل مقصد سے ہٹا دیا ہے۔ اس لیے وقت کی اہم ضرورت ہے کہ بیوروکریسی میں اصلاحات لائی جائیں۔ افسران کو شفاف احتساب کے عمل سے گزارا جائے، انہیں سیاسی مداخلت سے آزاد رکھا جائے، اور تربیت، وسائل، اور آزادیِ عمل فراہم کی جائے۔
یہ بھی پڑھیں: مشہور بھارتی اداکارہ نے ایکٹنگ چھوڑکر 1300 کروڑ کی کمپنی بنالی
بیوروکریسی اور سیاست
پاکستانی بیوروکریسی سیاستدانوں کو پہلے جال میں پھنساتی ہے اور بعدمیں ان سے مفادات لیکر خود وہاں سے بچا لیتی ہے۔ اس کے کئی طریقے ہیں۔ کیونکہ بیوروکریٹس کے خلاف کارروائی کے لیے انکوائری، سروس رولز اور محکمہ جاتی اجازت درکار ہوتی ہے۔ اکثر کیسز میں یہ رکاوٹ بن جاتے ہیں، یا پھر "اندرونی انکوائری" کے نام پر معاملہ دبا دیا جاتا ہے۔ اعلیٰ سطح پر بیوروکریسی میں ایک مضبوط "نیٹ ورکنگ" ہوتی ہے، جس میں وہ ایک دوسرے کو بچانے یا تحفظ دینے میں کردار ادا کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پلوامہ نے لوک سبھا انتخابات میں مدد دی، گودھرا نے گجرات میں اور اب پہلگام کا واقعہ بہار میں استعمال ہو رہا ہے” مودی پر بڑا الزام لگ گیا
معاشی مسائل اور بیوروکریسی
معیشت کسی بھی قوم کی ترقی کی بنیاد ہوتی ہے، اور جب کوئی نظام اس بنیاد کو کمزور کرے تو ترقی کے خواب ادھورے رہ جاتے ہیں۔ پاکستان میں ایسی ہی ایک رکاوٹ "بیوروکریسی" کی شکل میں موجود ہے، جو معیشت دوست ہونے کے بجائے، سرمایہ کاری کی راہ میں ایک نہایت پیچیدہ، خوفناک اور غیر یقینی بندش بن چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور یوتھ فیسٹیول میں گرلز کے لانگ جمپ، جیولن تھرو، ہائی جمپ، ٹرپل جمپ، ڈسکس تھرو، پول والٹ اور رسہ کشی کے ٹرائلز کا انعقاد
سرمایہ کاروں کے لئے چیلنجز
پاکستان میں اگر کوئی کاروباری شخص یا سرمایہ کار صرف ایک درمیانے درجے کا صنعتی یونٹ لگانے کی کوشش کرے تو اسے درجنوں محکموں، درجنوں قوانین اور بیوروکریسی کی درجنوں شرطوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بیوروکریسی کے پاس بے پناہ اختیارات، سرکاری وسائل اور تحفظ حاصل ہے، مگر اس کے احتساب کا کوئی موثر نظام موجود نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ
عصر حاضر کی ضرورت
اگر ہم نے اس فرسودہ بیوروکریسی کو جوں کا توں برقرار رکھا تو پھر ترقی کے خواب بس خواب ہی رہیں گے—کیونکہ غلامی کے دور کا یہ نظام آزادی کی ریاست میں نہ صرف بیکار ہے۔ ہمیں اپنی بیوروکریسی کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔
결론
پاکستان میں بیوروکریسی کا کردار ہمیشہ سے طاقتور اور بااثر رہا ہے، مگر بدقسمتی سے یہ ادارہ اکثر اوقات غیر جانبداری کی بجائے سیاسی وابستگیوں کا شکار نظر آتا ہے۔ ضرورت ہے کہ بیوروکریسی کو سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد کیا جائے اور اسے قانون کے سامنے جواب دہ بنایا جائے۔