ہندو اور سکھ بچے کہتے تھے کہ آپ کو یہاں سے نکال دیں گے، میں انہیں بتاتا تھا کہ قائد اعظمؒ نے پورا پنجاب مانگا ہے، اس لیے ہم یہیں رہیں گے

مصنف: رانا امیر احمد خاں

قسط: 26

برسات کا موسم اور آموں کی خوشبو

ہمارے گاؤں دھین میں برسات کے موسم میں جہاں آموں کی خوشبو فضا کو مہکاتی، وہیں کوئل کی کوک بھی ماحول میں خوبصورت موسیقی بکھیرتی تھی۔ بارش کے موسم میں ہمارے ہاں مختلف پکوان پکتے تھے جن میں میٹھے نمکین پْوڑے، پکوڑے، کچوریاں اور میٹھے گْلگلے شامل تھے، جو قریبی عزیزوں کے گھروں میں بھی بھیجے جاتے تھے۔ یہ پکوان برسات کے سہانے موسم کا لطف دوبالا کر دیتے تھے۔ آموں کے موسم میں سب گھر والے اور عزیز و اقارب مل کر دوپہر میں آم کھایا کرتے تھے۔ آموں کے بڑے بڑے ٹوکرے بھر کر رکھ لئے جاتے، سب آم بھی کھاتے اور خوش گپیاں بھی لگاتے اور بعد میں کچی لسی کا دور بھی چلتا تھا۔

شادی کی تقریبات کی یادیں

ایک اور دلچسپ واقعہ یاد ہے کہ ہمارے ہمسائے میں شادی تھی اور بارات دوسرے گاؤں جا چکی تھی۔ اس وقت خواتین بارات کے ساتھ نہیں جایا کرتی تھیں۔ بارات کے جانے کے بعد، برادری کی بہت سی خواتین شادی والے گھر میں جمع ہو گئیں اور ڈھولکی اور ناچ گانے کی محفل جم گئی۔ سارا دن شادی کے گیت گائے جاتے رہے۔ مگر جیسے ہی شام میں کسی نے خبر دی کہ بارات واپس آ رہی ہے۔ یہ سنتے ہی سب خواتین اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئیں۔ ذرا سی دیر میں ہی ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے یہاں کوئی محفل تھی ہی نہیں۔ اس بات سے مجھے اندازہ ہوا کہ اْس دور میں مسلم گھرانوں میں خواتین کے ناچ گانے کو پسند نہیں کیا جاتا تھا۔

بڑے بھائی کا واقعہ

ایک واقعہ جو بڑے بھائی کے حوالے سے مجھے یاد ہے کہ میرے بڑے بھائی نصیر احمد خاں، جس کی عمر اس وقت 10 سال تھی۔ ایک صبح بغیر بتائے گھوڑا لیکر گھر سے نکلے تو شام تک واپس ہی نہ آئے۔ سارا گھر پریشان تھا کہ نصیر بھائی کہاں چلے گئے۔ نصیر بھائی کو پہلے گاؤں میں ہی تلاش کیا گیا اور بعد میں دادا نے آس پاس کے گاؤں میں بھی آدمی دوڑائے۔ پتہ چلا کہ نصیر بھائی پنج لاسہ گاؤں نانکے پہنچے ہوئے تھے جو ہمارے گاؤں سے 20 میل کے فاصلے پر تھا۔ بہرحال بھائی اگلے دن واپس گھر کے لئے روانہ ہوئے۔ دادا کو بہت غصہ تھا کہ وہ بغیر بتائے کیوں گئے، دادا ہاتھ میں چھڑی لئے میرے سکول کے پاس پہنچ گئے اور جیسے ہی نصیر بھائی وہاں پہنچے، دادا نے چھڑی کے ساتھ ان کی بے حد پٹائی کی۔ بھائی صاحب کے رونے اور چیخنے کی آوازیں آج بھی میرے جسم میں رونگٹے کھڑے کر دیتی ہیں۔ یہ پٹائی نصیر بھائی کے لئے کتنی اثرانگیز ثابت ہوئی۔ مجھے نہیں معلوم، البتہ اس پٹائی سے میں نے سبق سیکھا کہ گھر والوں کو بغیر بتائے کہیں نہیں جانا چاہئے۔

پرائمری سکول میں داخلہ

مارچ / اپریل 1947ء میں میرے دادا مجھے ساتھ لے کر مقامی پرائمری سکول گئے اور پہلی جماعت میں میرا داخلہ کروا دیا۔ سکول کے ہیڈ ماسٹر جو کہ ہندو تھے، خوبصورت سفید کْرتا چوڑی دار پاجامہ زیب تن کیے ہوئے تھے اور میری پہلی جماعت کے مسلمان اْستاد سفید شلوار، قمیض میں ملبوس ہوتے تھے۔ دونوں ہی مجھے بہت جچے تھے اور ان کے شفقت سے بھرپور حسن سلوک سے میرے دل میں اساتذہ کے لیے عزت و احترام کے جذبات نے جنم لیا تھا۔ آج مجھے اپنے دونوں اساتذہ کے نام یاد نہیں ہیں۔ مسلمان اْستاد نے مجھے سب سے پہلے تختی کو دھونا اور گاچنی لگانا سکھایا، جس پر وہ مجھے اْردو حروف تہجی اور گنتی کے ہندسے گیلی تختی پر قلم سے لکھ کر دیتے تھے۔ اس طرح انہوں نے مجھے تختی سوکھنے پر سیاہی سے لکھنا سکھایا۔ ہمارا سکول پختہ کمروں اور وسیع کشادہ صحن پر مشتمل تھا۔

دوستی و اختلافات

اْس دور میں بھی پہلی جماعت کے طالب علموں کے لئے ڈیسک ہوا کرتے تھے۔ میرے ڈیسک پر ایک ہندو بچہ اور ایک سکھ بچہ میرے دائیں بائیں بیٹھا کرتے تھے۔ ہم گھروں میں جو باتیں سنتے تھے، وہی باتیں ہم آپس میں سکول میں بیٹھ کر کیا کرتے تھے۔ ہندو اور سکھ بچے کہتے تھے کہ آپ کو یہاں سے نکال دیں گے۔ میں انہیں بتاتا تھاکہ قائد اعظمؒ نے پورا پنجاب مانگا ہے۔ اس لئے ہم یہیں رہیں گے۔

(جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...