نظرثانی صرف واضح قانونی غلطی کی صورت میں ہی ممکن ہے، جسٹس منصور علی شاہ

نظرثانی کیس کی سماعت
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس کی سماعت سے قبل جسٹس منصور علی شاہ نے نظرثانی اختیارات سے متعلق اہم فیصلہ جاری کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: آپ نے گھبرانا نہیں ، ٹرمپ کا معاشی بے یقینی سے دوچار امریکی شہریوں کو مشورہ
نظرثانی اختیارات کا فیصلہ
نجی ٹی وی سما نیوز کے مطابق، سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے نظرثانی اختیارات کے دائرہ کار پر اہم فیصلہ جاری کیا۔ فیصلے کے مطابق، نظرثانی صرف آرٹیکل 188 اور متعلقہ رولز کے تحت ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سمندر پار پاکستانیوں کے لیے دروازے ہر وقت کھلے ہیں: بیرسٹر امجد ملک
نظرثانی کی شرائط
نظرثانی کیلئے لازمی ہے کہ فیصلے میں کسی واضح غلطی کی نشاندہی کی جائے۔ محض کسی ایک فریق کا عدم اطمینان نظرثانی کی بنیاد نہیں بن سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کا وی پی این سروسز بلاک کرنے کا تجربہ، کاروباری اداروں کا اظہار تشویش
نوٹس کرنے کے نکات
فیصلے میں کہا گیا کہ جو نکتہ پہلے مسترد ہو چکا ہو، اسے دوبارہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔ یہ دلیل بھی ناقابل قبول ہے کہ فیصلے میں دوسرا نکتہ نظر بھی شامل ہو سکتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ پنجاب کا ٹماٹر اور پیاز کی کاشت میں اضافے کیلئے میکانائزڈ فارمنگ کا اعلان
مقدمات کی تعداد
فیصلے کے مطابق، اس وقت پاکستان میں 22 لاکھ سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں۔ سپریم کورٹ میں 6 ہزار سے زائد کیسز زیر التواء ہیں، جن میں بڑی تعداد نظرثانی درخواستوں کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چیمپئنز ٹرافی کے معاملے پر پی سی بی سے بات چیت چل رہی ہے، راجیو شکلا کا بیان
غیر ضروری درخواستوں کی حوصلہ شکنی
عدالتی فیصلے میں زور دیا گیا کہ من گھڑت اور غیر ضروری نظرثانی درخواستوں کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔
خصوصی فیصلہ
مذکورہ فیصلہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر اور خیبرپختونخوا حکومت محکمہ تعلیم کی نظر ثانی درخواستوں پر جاری کیا گیا ہے۔ 29 فروری 2022 کو پرائمری اسکول ٹیچرز کے تقرری کے حوالے سے سپریم کورٹ کے جاری کردہ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ڈومیسائل رہائش کا اصلی ثبوت جبکہ صرف شناختی کارڈ اس سلسلے میں ناکافی ثبوت ہے.