50 فیصد پر پہلے ہی کنٹرول، اب پورے غزہ پر قبضہ، اسرائیل کا نیا جنگی منصوبہ سامنے آگیا

نیا اسرائیلی جنگی منصوبہ
تل ابیب (ڈیلی پاکستان آن لائن) اسرائیل نے ایک نیا جنگی منصوبہ منظور کیا ہے جس کے تحت وہ پورے غزہ پر قبضہ کرے گا اور غیر معینہ مدت تک وہاں موجود رہے گا۔ دو اسرائیلی حکام نے تصدیق کی ہے کہ کابینہ نے اس منصوبے کی منظوری پیر کی صبح دی۔ اسرائیلی فوج نے ہزاروں ریزرو فوجیوں کو دوبارہ طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اگر یہ منصوبہ مکمل طور پر نافذ ہوا تو غزہ میں اسرائیلی کارروائیاں نہایت وسعت اختیار کر لیں گی اور عالمی سطح پر سخت ردعمل متوقع ہے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور: سروسز ہسپتال میں پولیس اہلکاروں کا طبی عملے پر تشدد
منصوبے کے مقاصد
عرب نیوز نے ایسوسی ایٹڈ پریس کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ اسرائیلی حکام کے مطابق اس منصوبے کا مقصد حماس کو شکست دینا اور غزہ میں موجود اسرائیلی یرغمالیوں کو بازیاب کرانا ہے۔ اس عمل کے دوران لاکھوں فلسطینیوں کو جنوبی غزہ کی طرف دھکیلا جائے گا، جس سے انسانی بحران مزید شدید ہو سکتا ہے۔
جنگ بندی مارچ کے وسط میں ختم ہونے کے بعد اسرائیل نے غزہ پر شدید حملے شروع کر دیے تھے، جن میں سینکڑوں افراد شہید ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی افواج اب تک غزہ کے تقریباً 50 فیصد علاقے پر قبضہ کر چکی ہیں، جب کہ جنگ بندی سے پہلے ہی اسرائیل نے غزہ میں خوراک، ایندھن اور پانی کی فراہمی بند کر دی تھی، جس سے صورتحال بدترین انسانی بحران کی شکل اختیار کر چکی ہے.
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی احتجاج پر پشاور ہائیکورٹ میں ہنگامہ، ججز اٹھ گئے
امداد کی تقسیم کا منصوبہ
اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس امدادی سامان کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتی ہے، اس لیے اسے تقسیم کرنے کا اختیار نہیں دیا جا سکتا۔ اسرائیلی حکام کے مطابق امداد کی تقسیم پر بھی قابو پانے کے لیے ایک منصوبہ بنایا گیا ہے جس کے تحت نجی سیکیورٹی کمپنیاں غزہ میں امداد تقسیم کریں گی۔ اس ضمن میں اقوامِ متحدہ کے ساتھ ملاقات بھی ہوئی جس میں بتایا گیا کہ امداد صرف کیرم شالوم کراسنگ سے داخل کی جائے گی اور روزانہ 60 ٹرکوں کو اجازت دی جائے گی، جبکہ امداد لینے کے لیے فلسطینیوں کو مخصوص مراکز پر جانا ہوگا۔ امداد حاصل کرنے کے لیے چہرے کی شناختی ٹیکنالوجی اور موبائل پیغامات کا استعمال کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف کی رہنما نے گرفتاری کی تردید کر دی، معاملہ کیا ہے ؟ تفصیلات جانیے
اقوامِ متحدہ کا ردعمل
اقوامِ متحدہ نے اس منصوبے پر شرکت سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اس کے بنیادی انسانی اصولوں کے منافی ہے۔ اقوام متحدہ نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ یہ منصوبہ بڑے پیمانے پر نقل مکانی کو فروغ دے گا اور انتہائی کمزور طبقے کے افراد تک امداد کی رسائی ممکن نہیں رہے گی۔ امدادی اداروں نے بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ منصوبہ فلسطینیوں کو مستقل طور پر بے دخل کر سکتا ہے اور انہیں ایسے حالات میں دھکیل دے گا جو "ڈی فیکٹو انٹرنمنٹ" جیسے ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: بشریٰ بی بی کی وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور سے ملاقات
امریکہ کی حمایت
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ امریکہ نے اس منصوبے کی حمایت کی ہے، تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ نجی سیکیورٹی کمپنیوں اور امداد کی فراہمی کے اخراجات کون اٹھائے گا۔ امدادی اداروں کے درمیان گردش کرنے والے ایک خفیہ نوٹ کے مطابق اسرائیلی وزارت دفاع کے ذیلی ادارے COGAT نے اقوام متحدہ کو اس منصوبے سے آگاہ کیا، تاہم یو این نے اس میں شرکت سے انکار کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ: شام کے مختلف علاقوں میں کن کی حکمرانی ہے؟
جاری فضائی حملے
دوسری جانب اسرائیلی فضائی حملے بھی جاری ہیں۔ رات بھر جاری رہنے والے حملوں میں شمالی غزہ کے علاقوں غزہ سٹی، بیت حانون اور بیت لاہیا میں کم از کم 17 افراد شہید ہو گئے، جن میں آٹھ خواتین اور بچے شامل ہیں۔ ان کی لاشیں الشفاء ہسپتال منتقل کی گئیں۔
جنگ کا پس منظر
غور طلب ہے کہ یہ جنگ سات اکتوبر کو اس وقت شروع ہوئی جب حماس کے جنگجوؤں نے جنوبی اسرائیل پر حملہ کیا، جس میں 1200 افراد مارے گئے اور 250 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا۔ اسرائیل کے مطابق اب بھی 59 یرغمالی غزہ میں موجود ہیں، جن میں سے 35 کے مارے جانے کا خدشہ ہے۔ فلسطینی حکام کے مطابق اب تک اسرائیلی کارروائیوں میں 52 ہزار سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔ اسرائیل نے غزہ پر 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران قبضہ کیا تھا اور 2005 میں فوجی اور یہودی آبادکاروں کو واپس بلا لیا تھا جب کہ 2007 میں حماس نے غزہ کا کنٹرول سنبھالا۔