جتنی پلیٹ فارم پر چہل پہل اور رونق ہوتی ہے اتنا ہی اداس ماحول اسٹیشن کے باہر نظر آتا ہے، زیادہ تر قلی ہی منڈلی سجائے بیٹھے ہوتے ہیں۔

مصنف
محمد سعید جاوید
یہ بھی پڑھیں: عالیہ حمزہ اور عمیر خان نیازی کی 26 نومبر احتجاج میں عبوری ضمانتیں خارج
قسط 120
یہ بھی پڑھیں: واشنگٹن کی اہم عمارتوں کے باہر حفاظتی دیواریں کھڑی کردی گئیں، مگر کیوں؟ وجہ جانیے
لیول کراسنگ کے حادثات
پاکستان میں تو شاید ہی کوئی ہفتہ ایسا گزرتا ہو جب ایسے لیول کراسنگ پر کچھ زیادہ ہی با اعتماد اور جلد باز ڈرائیور اپنے ساتھ دوسری سواریوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیتے ہیں۔ ایسے کسی بھی حادثے کے بعد حکومت کو کوسا جاتا ہے اور سارا الزام ان پر لگا کر اگلے حادثے کی اطلاع ملنے تک مطمئن ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ اپنے محدود وسائل میں محکمہ ریلوے ایسے ہزاروں لیول کراسنگ پر عملے کو کیسے تعینات کرے۔
یہ بھی پڑھیں: ای سی او سفیروں اور نمائندوں کا ارفع ٹاور میں پنجاب آئی ٹی بورڈ آفس کا دورہ
نئی ایم-ایل 1 منصوبہ
پاکستان میں جو نئی ایم-ایل 1 بننے جا رہی ہے اس میں ایسے انتظامات کیے جا رہے ہیں کہ موٹر وے کی طرز پر ریلوے لائن کے ساتھ چار فٹ اونچی دیوار بنا کر پٹری پر انسانوں اور جانوروں کے جانے کی راہ بند کردیں اور سارے لیول کراسنگ ختم کرکے وہاں کی مقامی آبادی کے گزرنے کے لیے زیر زمین راستے بنا دئیے جائیں۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان اب کبھی دوبارہ پاکستان کے وزیراعظم نہیں بن سکتے، سابق چیئرمین ایف بی آر نے بانی پی ٹی آئی کو مشورہ دیدیا
باب 4: اسٹیشن سے باہر نکلیں
اسٹیشن کے باہری ماحول
جتنی اسٹیشن کے اندر اور پلیٹ فارم پر چہل پہل اور رونق ہوتی ہے اتنا ہی اداس اور ویران سا ماحول اسٹیشن کے باہر نظر آتا ہے جہاں بہت کم مسافر ہوتے ہیں، نئے آنے والے اندر چلے جاتے ہیں اور سفر مکمل کرکے باہر آنے والے اپنی اپنی سواریاں لے کر گھروں کو نکل جاتے ہیں۔ بس چند ریلوے کے ملازمین نظر آتے ہیں، باقی وہاں زیادہ تر قلی، رکشے، ٹیکسی اور دوسری سواریوں والے ہی اپنی منڈلی سجائے بیٹھے ہوتے ہیں۔
مسافروں کی آمد
اسٹیشن سے کسی مسافر کے باہر آنے پر یہ لوگ اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں اور ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس کی سواری کو ہی رونق بخشے۔ دو چار چائے خانے اور سستے ڈھابے ہوتے ہیں جو تھکے ہارے مسافروں کو کچھ کھانے پینے کو فراہم کر دیتے ہیں۔ تھوڑا آگے چلیں تو ایک قطار میں سستے ہوٹل ہوتے ہیں۔ کچھ مسافر اسٹیشن کی قربت کی وجہ سے یہاں رات بسر کرنے کے لیے ٹھہر جاتے ہیں کہ ان کو شہر میں کچھ کام نبٹا کر واپس بھی جانا ہوتا ہے。
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر اسمبلی میں خصوصی حیثیت کی بحالی کی قرارداد منظور
کھمبوں کی شکل
ویسے تو اسٹیشن کے باہر کئی اقسام کے کھمبے لگے ہوئے ہوتے ہیں جو سگنل، وسل، حد رفتار یا کسی اور ہدایت پر عمل کروانے کے لیے نصب کیے جاتے ہیں، تاہم ان کے علاوہ بھی ریل کی پٹری کے ساتھ ساتھ ٹیلیگراف اور ٹیلیفون کے کھمبے چلتے بلکہ دوڑتے ہیں。
(جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔