ہنر مند لوگ کھمبوں پر لکھی فاصلے پڑھ کر اور حساب کتاب لگا کر گاڑی کی رفتار کا اندازہ لگا لیتے تھے، مسافروں کو منزل تک پہنچنے کا وقت بھی بتا دیتے تھے۔

مؤثر پیغام رسانی کا آغاز
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 121
پرانے وقتوں میں جب مختلف اسٹیشنوں میں آپس کے رابطے کا کوئی مؤثر ذریعہ نہیں ہوتا تھا، تو ان کھمبوں پر کسی گئی تانبے کی تاروں کے ذریعے سے ہی گاڑیوں کی آمد و رفت کے بارے میں پیغام رسانی کا عمل جاری رہتا تھا۔ شروع میں تو ایسے پیغامات کو بھیجنے کے لیے مورس کی (Morse Key) ہی استعمال ہوتی رہی، بعد میں جب ٹیلیفون کا نظام آگیا تو اسے فارغ کرکے اسٹیشنوں کا کاروبار اس پر منتقل ہو گیا۔ تاہم پاکستان بننے کے ایک عرصے بعد تک محکمہ ڈاک اور انہار وغیرہ اسی مورس کی کے ذریعے اپنی تار کا متن اور پیغامات بھیجتے رہے۔
یہ بھی پڑھیں: قومی شاہراہ سندھ کی مسلسل بندش سے صنعتوں کے بند ہونے کا خطرہ ہے: او آئی سی سی آئی
کھمبوں کے فوائد
ان کھمبوں کو ریلوے کی پٹری کے ساتھ ساتھ لگانے کا یہ فائدہ ہوتا تھا کہ ان پر لگی ہوئی تار کی جانچ پڑتال اور فوری مرمت ہو جاتی تھی اور عملے کو وہاں پہنچنے میں آسانی ہو جاتی تھی۔ کچھ عرصے بعد مورس کی مکمل طور پر متروک قرار پائی تو اس آلے کو اٹھا کر گوداموں میں پھینک دیا گیا یا کالجوں اور عجائب گھروں کو دان کر دیا گیا کہ وہاں کے استاد اور گائیڈ ذرائع ابلاغ کی تحقیق و تاریخ کے بارے میں کچھ بتا اور دکھا سکیں۔
یہ بھی پڑھیں: انڈیا میں غیر ملکی سرمایہ کاری پر پاک بھارت کشیدگی کا کتنا اثر پڑے گا؟
فاصلے کی پیمائش کا نظام
یہ کھمبے ایک مقررہ فاصلے پر لگائے جاتے تھے جس کا معیاری فاصلہ ایک فرلانگ ہوتا تھا اور اس وقت کے قاعدے قانون کے مطابق 8 فرلانگ کا ایک میل بنتا تھا۔ چونکہ 1 میل میں 8 کھمبے ہوتے تھے اس لیے محکمہ ریلوے نے ایک تیر سے دو شکار کرتے ہوئے انہیں مرکزی اسٹیشن سے فاصلہ بتانے کے لیے بھی استعمال کیا۔ ہر کھمبے کے گلے میں ایک چھوٹی سی فولادی تختی لٹکا کر اس پر یہ فاصلہ کچھ یوں لکھوا دیا جاتا تھا، جیسے کہ 2/179 یا 7/540 وغیرہ۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت نے بجلی کی قیمت کم کرنے کے لیے نیپرا میں درخواست جمع کرادی
مسافروں کے لیے معلوماتی نظام
جن سے یہ علم ہوتا تھا کہ وہاں سے مرکزی اسٹیشن، یعنی جہاں سے گاڑی بن کر چلی تھی، کتنی دور ہے۔ مثلاً کراچی کا فاصلہ 540 میل اور 7 فرلانگ ہے۔ ہر 8 فرلانگ کے بعد میل کا نمبر بدل جاتا تھا اور کھمبوں کی گنتی ایک بار پھر نمبر 1 سے شروع ہو کر 7 تک جاتی تھی۔ یہ سادہ سا نظام مسافروں کو اپنے سفر کے بارے میں جامع معلومات دیتا تھا۔ شاطر لوگ ان کھمبوں پر لکھے گئے فاصلوں کو پڑھ کر اور ذرا سا حساب کتاب لگا کر گاڑی کی رفتار کا اندازہ لگا لیتے تھے، پھر مزید ضرب تقسیم کی مدد سے ساتھی مسافروں کو ان کی منزل مقصود تک پہنچنے کے وقت کا کسی حد تک درست اندازہ بھی لگا کر بتا دیتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: میوبرادری کی شادی، 50 ہزار لوگوں کو کھانا کھلایا گیا، 5 دن مہندیاں ہوئیں، 10 دن شادی چلی، موبائل، سوٹ اور بہت کچھ لٹایا گیا
اعشاری نظام کا نفاذ
1970ء کی دہائی میں جب دوسرے شعبوں کی طرح فاصلوں کے لیے بھی اعشاری نظام رائج ہوا تو میل کی جگہ کلو میٹر نے لے لی۔ اس کو نافذ کرنے سے ایک تو صدیوں پرانی ریت روایت کو بدلنے میں بھی مشکلات پیش آئیں اور ریل کی ہزاروں میل طویل پٹریوں پر بیک وقت میلوں اور فرلانگوں کی اکائیوں کو کلو میٹر یا میٹر میں بدلنا اور پھر اس کے نتیجے میں کھمبوں کی جگہ بدلنا کچھ سہل نہیں تھا۔
یہ بھی پڑھیں: شہرقائد میں پارہ 40ڈگری تک جانے کا امکان
جدید دور کی تبدیلیاں
اور نہ ہی یہ سب کچھ کرنے کی فوری ضرورت ہی تھی۔ لہٰذا اس کام کو چھیڑا ہی نہیں گیا بلکہ فاصلے کی ان پرانی اکائیوں کو ہمیشہ کے لیے دفن کرکے، ریلوے لائنوں پر بین الاقوامی معیار کے مطابق ہر چند کلو میٹر کے بعد اگلے اہم اسٹیشنوں کا فاصلہ بتانے والے بڑے بڑے بورڈ نصب کر دئیے گئے۔ البتہ اسٹیشن کی عمارت پر میلوں میں لکھی گئی عبارت کو تبدیل کر دیا گیا۔ اب ان پر لکھا ہوا یہ فاصلہ کلومیٹروں میں اور سطح سمندر سے بلندی کو فٹوں سے میٹروں میں بدل دیا گیا ہے۔ کھمبوں سے رفتہ رفتہ یہ ساری نشانیاں زنگ آلود ہو کر خود بخود جھڑ گئیں، اب تو صرف کھمبے ہی کھڑے رہ گئے ہیں۔
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔