جج کے ٹرانسفر کو عدلیہ کی آزادی کے تناظر میں دیکھا جائے، وکیل منیر اے ملک

سپریم کورٹ میں ججز کی ٹرانسفر کے کیس کی سماعت
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) سپریم کورٹ آئینی بنچ میں ججز ٹرانسفر سے متعلق کیس میں جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کوئی جج مستقل جج کا حلف نہیں اٹھاتا۔ پہلے ایڈیشنل جج کا حلف ہوتا ہے پھر جوڈیشل کمیشن کے ذریعے وہ مستقل ہوتا ہے۔ ججز کی ٹرانسفر کی نئی تعیناتی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: صرف 200 روپے میں پاکستانی جاسوس بننے والا بھارتی شہری گرفتار، بھارتی میڈیا کا مضحکہ دعویٰ جگ ہنسائی کا سبب بن گیا
وکیل منیر اے ملک کے دلائل
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق، وکیل منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ججز کی سنیارٹی عدلیہ کی آزادی کے ساتھ منسلک ہے۔ جسٹس شاہد بلال نے کہا کہ ماضی میں لاہور ہائی کورٹ کے 3 جج اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ سنیارٹی کا تعین کون کرے گا؟ وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ سنیارٹی کا تعین چیف جسٹس کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: 9 مئی مقدمات: پی ٹی آئی کے غیر حاضر کارکنان کے وارنٹ گرفتاری جاری
چیف جسٹس کے انتظامی اختیارات
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ چیف جسٹس کی جانب سے سنیارٹی تعین کا اختیار انتظامی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ چیف جسٹس کے انتظامی فیصلے کے خلاف متاثرہ فریق کہاں رجوع کرے گا؟ وکیل منیر اے ملک نے جواب دیا کہ متاثرہ فریق مجاز عدالت سے داد رسی کے لیے رجوع کرے گا۔ اسلام آباد اور دیگر ہائیکورٹس میں تقرری کے لیے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل مختلف ہوتی ہے۔ ہر ہائیکورٹ کے جج کا حلف الگ اور حلف لینے والا بھی الگ ہوتا ہے۔
ججز کی ٹرانسفر اور عدلیہ کی آزادی
جسٹس محمد علی مظہر نے واضح کیا کہ کوئی جج مستقل جج کا حلف نہیں اٹھاتا۔ پہلے ایڈیشنل جج کا حلف ہوتا ہے، جس کے بعد جوڈیشل کمیشن کے ذریعے وہ مستقل ہوتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ٹرانسفر کی نئی تعیناتی قرار نہیں دیا جا سکتا، جبکہ منیر اے ملک نے اصرار کیا کہ ججز کی ٹرانسفر کو عدلیہ کی آزادی کے تناظر میں دیکھا جائے۔