آج بھی مل بیٹھتے ہیں تو اُس دور کی یادیں دوڑی چلی آتی ہیں، بس ایک کسک رہتی ہے کہ کچھ چہرے جو ہمیشہ مسکراتے تھے اب ابدی گھروں کو جا چکے ہیں
مصنف کا تعارف
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 169
یہ بھی پڑھیں: رابعہ کلثوم نے بھارت میں کام کرنے والے پاکستانی فنکاروں کو چپیڑیں مارنے کا اعلان کردیا
تربیتی پروگرام کا اختتام
قار ی ضیا ء نے شرکاء تربیت کی جانب سے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا؛ “یہ نوجوان افسر جو اعلی تعلیم یافتہ ہیں انشا اللہ محکمہ کی توقعات پر پورا اتریں گے۔“ پر تکلف چائے سے یہ وزٹ اختتام پذیر ہوا۔ ڈائریکٹر آفس کی ورکنگ کے حوالے یہ دورہ بڑا مفید تھا۔ اگلے 2 روز فیلڈ attachment کی رپورٹس پیش کرنے اور ان پر سوال و جواب کے لئے مختص تھے۔
یہ بھی پڑھیں: وزارت کھیل نے بی سی بی صدر فاروق احمد کو عہدے سے ہٹادیا
تربیت کا آخری ہفتہ
لوٹ کے بدھو دفتر آئے؛ تربیت کا آخری ہفتہ بھی گزر گیا۔ دوستوں کی فیلڈ رپورٹس کے دو دن بڑی سیر حاصل گفتگو رہی۔ دوستوں اور انسٹر کٹرز کے تجربات نے بہت سی باتوں کی کلیرٹی کر دی۔ اگلے روز تحریری امتحان تھا جس میں میرے 77 نمبر وں نے مجھے دوسری پوزیشن دلا دی۔
یہ بھی پڑھیں: ملک کے مختلف علاقوں میں موسلا دھار بارشیں جاری
آخری دن کی اہمیت
30 جون 88 تربیت کا آخری دن تھا۔ پرنسپل غلا م محمد صاحب نے سرٹیفیکٹ تقسیم کئے۔ ان کا الوادعی خطاب بھی بہت جاندار تھا۔ آدھ گھنٹہ وہ خوب بولے۔ ان کے خطاب میں ایمانداری کا درس، فرض سے لگن کی پہچان اور اچھے مستقبل کی نوید بھی تھی۔ مقامی حکومتوں کی اہمیت پر ان کا انداز بیان دلوں کو چھو رہا تھا۔ دوران تربیت توجہ نہ کرنے والے ان کی باتیں سن کر ضرور پچھتائے ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: سونا 4700 روپے مہنگا، فی تولہ قیمت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی
دوستوں کی یادیں
لنچ کے بعد ہم ایک دوسرے سے خوشی اور گرم جوشی سے گلے ملے کہ پھر نہ جانے کب کہاں ملاقات ہو۔ یہ 6 ہفتے ایک پل ہی لگے تھے۔ اس کے بعد ہم کبھی بھی سارے ایک ساتھ اکٹھے نہ ہو سکے۔ سبھی ان 6 ہفتوں کی اچھی یادیں لئے اپنے اپنے دفاتر روانہ ہوگئے۔ آج بھی کہیں مل بیٹھتے ہیں تو اُس دور کی باتیں دوڑی چلی آتی ہیں۔ بس ایک کسک رہتی ہے کہ کچھ چہرے جو ہمیشہ مسکراتے تھے اب اپنے ابدی گھروں کو جا چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: گورنر خیبرپختونخوا کی میری حکومت گرانے کی حیثیت نہیں: علی امین گنڈاپور
سرکاری گھر کی تعمیر
دوران تربیت میرا سرکاری گھر مرمت کے بعد نئی لک دے رہا تھا۔ تھوڑی سی کوشش اور معمولی سی رقم سے اس کی شکل ہی بدل گئی تھی۔ میں یہ سمجھنے سے آج بھی قاصر ہوں کہ لوگ کیسے ٹوٹے گندے گھروں میں رہ لیتے ہیں۔ بعد میں سمجھ آیا ہم مرمت کی سرکاری گرانٹ بھی اپنے گھر اور اپنی موٹروں پر ہی خرچ کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: الو ارجن کی فلم ’پشپا 2‘ نے کمائی کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ،سب ہندوستانی فلموں کو پیچھے چھوڑ دیا
دوستی اور تعاون
ٹھکریاں یونین کونسلر مرزا احمد کا فرنیچر کا چھوٹا سا کاروبار تھا۔ ان سے کہہ کر میں نے اپنے لیے ایک سنگل بیڈ بنوا لیا۔ ان کی مہربانی یہ رہی کہ انہوں نے میرے بڑے اصرار کے بعد صرف ایک ہزار روپے مجھ سے مزدوری لی تھی۔ ویسے اس زمانے میں سنگل بیڈ 3 ہزار (3000) کا بنتا تھا۔ مرزا احمد بڑا شریف اور دید مرید والا انسان تھا۔ آج کل علی چک کے قریب اس کا فرنیچر کا اپنا شو روم ہے۔ ملاقات کیے ہوئے مدت ہو گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وفاق کے ساتھ ساتھ صوبے میں بھی تعلیمی ادارے بند رہیں گے
نئی ذمہ داریاں
اب میری افسری کسی کی محتاج نہ رہی تھی۔ میں خود اس قابل ہو گیا تھا کہ سرکاری خط و کتابت درست انداز سے کر سکتا تھا، گو ابھی مجھے اور بہت کچھ جاننا تھا۔ زندگی میں سیکھنے کا عمل کبھی بھی رکتا نہیں ہے۔
نوٹ
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








