دوست مغرب کے بعد جمع ہوتے، ہم روزمرہ کے معاملات پر تبادلۂ خیالات کے علاوہ تعلیمی کھیل کھیلتے، پاکستان اور دنیا کے نقشے میز پر بچھالیتے۔

مصنف کا تعارف
مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 38
یہ بھی پڑھیں: خضدار: نامعلوم افراد کی فائرنگ سے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نصیر مینگل کا بیٹا قتل، پوتا زخمی
بچپن کی یادیں
آج جب میں 83 سال کی عمر میں اپنے سکول کے دور کے معمولات پر غور و خوض کرتا ہوں تو مجھے اپنے والدین اور اساتذہ کے کردار کے علاوہ ہماری فٹبال، ہاکی، کرکٹ کلبوں کے دوستوں کے گروپ کا کردار اہم محسوس ہوتا ہے۔ جس کے باعث میری شخصیت اور آئندہ زندگی پر گہرے اور دوررس اثرات مرتب ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (پیر) کا دن کیسا رہے گا ؟
دوستی اور سیکھنے کے مواقع
ہمارے دوست لڑکپن کی عمر میں سکول میں تعلیم اور کھیل کے علاوہ فٹبال، ہاکی، کرکٹ کلبوں میں ایک بے نام گروپ کی شکل میں کام کرتے ہوئے لاشعوری طور پر گروپ ورک، تنظیم سازی، مل جل کر کام کرنا، تعاون دینا اور لینا (ٹیم ورک) سیکھ رہے تھے اور اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا فریضہ انجام دے رہے تھے اور آئندہ زندگی کے لئے عملی مفید ٹریننگ حاصل کر رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیرصدارت پہلا فل کورٹ اجلاس ختم
دوستوں کے ساتھ مشترکہ سرگرمیاں
پانچویں جماعت سے لے کر دسویں جماعت کے دوران دوست اکثر میرے گھر پر بھی مغرب کے بعد جمع ہوتے تھے۔ جہاں ہم روزمرہ کے معاملات پر تبادلہ خیالات کرنے کے علاوہ تعلیمی کھیل بھی کھیلتے۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس طارق محمود جہانگیری ڈگری کیس؛ جسٹس صلاح الدین پنہور کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ کا سماعت سے انکار
نقشہ پڑھنے کے دلچسپ تجربات
پاکستان اور دنیا کے نقشے میز پر بچھا کر ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ آئیے دیکھیں دنیا کے نقشے پر کوپن ہیگن، سڈنی کہاں واقع ہیں، کون پہلے تلاش کرے گا؟ اسی طرح دریاؤں کے بارے میں کہ دریائے ڈینیوب، رائن، دریائے ٹیمز وغیرہ کہاں واقع ہیں؟
یہ بھی پڑھیں: انگلینڈ نے پاکستان کو جیت کیلئے انتہائی آسان ہدف دیدیا
محلے کی خبریں اور حفاظت
ہم اپنے شہر اور محلے کے معاملات بھی شیئر کرتے تھے کہ کہاں کہاں غلط کام ہو رہے ہیں اور کہاں اچھا کام کیا جا رہا ہے؟ کوئی باہر کا آدمی ہمارے محلے کی لڑکیوں پر نظر تو نہیں رکھ رہا یا ورغلانے کی کوشش تو نہیں کر رہا؟
یہ بھی پڑھیں: بیروت میں اسرائیلی فضائی حملے: حزب اللہ کے ممکنہ رہنما کو نشانہ بنانے کا دعوی
دلچسپ واقعات
جب ہمارے دوستوں میں سے کسی نے شیئر کیا کہ ایک خوانچہ فروش نوجوان روزانہ ہماری گلی کا چکر لگاتا ہے اور ایک دوست کے گھر کراچی سے آئی ہوئی مہمان لڑکی پر ڈورے ڈالنے کی کوشش میں ہے۔ چنانچہ دوستوں نے فیصلہ کیا کہ کل مل کر اس کی ٹھکائی کی جائے تاکہ ہماری گلی میں اس کا آنا بند ہو جائے۔
اتوار چھٹی کے دن سب دوست صبح کے وقت ہمارے گھر کی بیٹھک میں اکٹھے ہو گئے اور جونہی خوانچہ فروش کی آواز کان میں پڑی، ہمارے دوستوں نے باہر آ کر اْسے دبوچ لیا۔ ایسے موقعوں پر ہمارا صدیق نامی دوست، جسے ہم اچھے قد و قامت کے باعث “جن” کے لقب سے بھی پکارتے تھے، اپنا کام دکھاتا تھا۔
صدیق جن نے اْس خوانچہ فروش کو اْٹھا کر زمین پر پٹخا اور اْسے کہا کہ تم ہماری خواتین پر بْری نظر رکھنے کے لئے آتے ہو۔ آج کے بعد تم اس گلی میں نظر آئے تو تمہاری ٹانگیں توڑ دیں گے۔ چند دوستوں نے اْسے مزید تھپڑ لگائے۔ چنانچہ اْس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے معافی مانگنے میں ہی عافیت جانی اور دوبارہ کبھی ہماری گلی کا رْخ نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیں: پانچ ہزار سے پانچ لاکھ تک کا جرمانہ، سندھ پولیس کا ٹریفک قوانین کی پاسداری کے لیے اصلاحات کا اعلان
بہادری کے مزید واقعات
ایسا ہی ایک دوسرا واقعہ جس کی وجہ سے ہمارے دوستوں کے گروپ کی بہادری کی وجہ سے جڑانوالہ میں دھاک بیٹھ گئی۔ یہ پہلے واقعہ کے چند ماہ بعد کا ہے کہ ہم دوست مل کر فیصل آباد روڈ کی طرف سے نہر جھال پر جا رہے تھے۔
چمڑا منڈی گزرنے کے بعد ذرا آگے ٹرکوں کے اڈے کے مالکان کا ڈیرہ تھا۔ اڈے کے مالک لوکل کونسلر بھی تھے۔ ان کے ایک کارندے نے ہم دوستوں کو روک کر بڑی بدتمیزی سے کہا کہ پرے ہٹ کر چلو، تمہیں پتہ نہیں کہ تم کہاں سے گزر رہے ہو، ہم بدمعاش ہیں۔
اس پر ہم دوستوں نے "صدیق جن" کو اشارہ کیا کہ اسے سبق سکھانا چاہیے اور اس کی بدمعاشی نکالی جائے۔ اشارہ پاتے ہی صدیق جن نے اس بدمعاش کو اْٹھا کر زمین پر دے مارا، مزید تھپڑوں کی بارش کر دی اور کہا تمہاری بدمعاشی نکالتے ہیں۔
قریب ہی لمبی چوڑی چارپائی پر بیٹھے ہوئے اُس کے دونوں ٹرک مالکان چپ سادھے بیٹھے رہے اور وہ بدمعاش معافیاں مانگتا ہوا واپس چلا گیا۔
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔