مودی حکومت سیز فائر توڑنا چاہتی ہے لیکن ۔۔۔‘‘ حامد میر نے اہم انکشافات کر دیئے

حامد میر کی بیان: سیز فائر اور مسئلہ کشمیر
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن) سینئر صحافی حامد میر نے کہا ہے کہ پاکستان کبھی سیز فائر کی خلاف ورزی نہیں کرے گا کیونکہ وہ مسئلہ کشمیر کو پرامن اور بامعنی مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے۔ تاہم مودی حکومت کے سیاسی عزائم سیز فائر کے خلاف ہیں اور وہ موقع ملنے پر اسے توڑنے کی کوشش کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں: طلباء میں لیپ ٹاپس کی تقسیم کی پہلی تقریب لاہور میں کب ہوگی؟ وزیر تعلیم نے بتا دیا
بھارتی سیاست اور میڈیا
نجی ٹی وی آج نیوز کے پروگرام میں حامد میر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی سیاست اور اس کا میڈیا بالی ووڈ سے متاثر ہے، جو ہر چیز کو ایک فلمی اسکرپٹ کی طرح دکھاتا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے حالیہ بیانات اور برطانوی وزیر خارجہ کی پاکستان آمد اس بات کی نشاندہی ہے کہ عالمی سطح پر سیز فائر کے ختم ہونے کا خدشہ موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بیرون ملک سے آنیوالوں کو ایک سے زائد موبائل لانے کی اجازت مل گئی
پاکستان کا موقف
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی نے کہا کہ مجھے یقین ہے پاکستان کبھی سیز فائر نہیں توڑے گا۔ پاکستان میننگ فل ڈائیلاگ کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہتا ہے لیکن یہ مودی کے وارے میں نہیں ہے کیونکہ ان کی پارٹی اس خطے میں اکھنڈ بھارت بنانا چاہتی ہے اور انھوں نے اسے اپنی پارلیمنٹ میں آویزاں کر رکھا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مودی حکومت اسپانسرڈ ٹیررازم کے ذریعے اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھ رہی ہے اور سیز فائر اس راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: دنیا زراعت میں آگے نکل گئی، ہم قوم کا قیمتی وقت ضائع کرتے رہے: وزیراعظم
امریکی ثالثی کا کردار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش سے متعلق سوال پر حامد میر نے کہا کہ وہ اگرچہ امریکی پالیسیوں، خاص طور پر فلسطینیوں کے معاملے پر ٹرمپ کے سخت ناقد ہیں، لیکن کشمیر پر ان کی ثالثی اور سیز فائر کے کردار سے انکار ممکن نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: محکمہ تعلیم (پیکٹا) کی 4 روزہ انٹرنیشنل ورکشاپ ختم، بین الاقوامی ماہرین تعلیم کی شرکت، گلوبل سٹیزن شپ ان ایجوکیشن پر ٹریننگ دی۔
تاریخی پس منظر
انھوں نے کہا، امریکہ 1957 سے پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرتا آ رہا ہے۔ انڈس واٹر معاہدہ جو 1960 میں ہوا، وہ 1957 میں ہونے والے ایک ایگریمنٹ کا نتیجہ تھا۔ اس وقت کے امریکی صدر روز ویلٹ اور پاکستانی وزیراعظم حسین شہید سہروردی کے درمیان ایک مشترکہ اعلامیہ 13 جولائی 1957 کو جاری ہوا، جو آج بھی یو ایس گورنمنٹ کے اسٹیٹ آف آرکائیو میں موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ولادیمیر، رک جاؤ! ہر ہفتے ۵ ہزار فوجی مر رہے ہیں” ٹرمپ کا پیوٹن کیلئے پیغام
بھارتی میڈیا کا اثر
حامد میر نے بھارتی میڈیا کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے کہا، میڈیا کسی بھی معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے۔ جو کچھ انڈین میڈیا میں نظر آتا ہے، جھوٹ، افواہیں، تکبر اور رعونت، وہ سب بھارتی معاشرت کا عکس ہے۔ میں تمام بھارتی میڈیا کی بات نہیں کر رہا، کچھ اچھے لوگ بھی ہیں جنھوں نے مودی کی اینٹی پاکستان پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
یہ بھی پڑھیں: 10 ارب روپے ہرجانے کا دعویٰ، عمران خان کے وکیل کی وزیراعظم شہباز شریف پر جرح
حامد میر کا تجربہ
پروگرام کے دوران انہوں نے ایک واقعہ کا ذکر کیا کہ 9 اور 10 مئی کی درمیانی رات بھارتی صحافیوں نے انھیں فون کر کے پوچھا کہ وہ زندہ ہیں یا نہیں، کیونکہ انڈین چینلز پر یہ بریکنگ چل رہی تھی کہ بھارتی فوج اسلام آباد میں داخل ہو گئی ہے، وزیراعظم شہباز شریف گرفتار ہو چکے ہیں اور جنرل عاصم منیر چین بھاگ گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ویرات کوہلی پاکستان میں کھیلنے کےلیے بے تاب ہیں، شعیب اختر کا دعویٰ
ارنب گوسوامی پر تنقید
ارنب گوسوامی سے متعلق انھوں نے کہا، میرے ان سے ذاتی کوئی لڑائی نہیں۔ وہ کبھی ایک پروفیشنل صحافی تھے، لیکن اب وہ بی جے پی کے ترجمان بن چکے ہیں۔ ان کے چینل کو بی جے پی رہنما راجیو شیکھران فنڈ کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی کرکٹر رشبھ پنت کی سابقہ گرل فرینڈ اور بالی ووڈ اداکارہ اروشی روٹیلا نے پیغام جاری کردیا
برکھا دت کے ساتھ تعلقات
برکھا دت کے ساتھ ماضی کے تعلقات پر بات کرتے ہوئے حامد میر نے کہا کہ آگرہ مذاکرات کے دوران ان کا ردعمل نان پروفیشنل تھا، لیکن بعد میں ان کے تعلقات بہتر ہو گئے۔ نواز شریف کے دور میں وہ پاکستان آئیں، لاہور میں نواز شریف کا انٹرویو کیا اور واپس چلی گئیں۔
پاکستانی میڈیا کی آزادی
پاکستانی میڈیا کی آزادی پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا، بھارتی میڈیا کو پاکستانی میڈیا سے سیکھنا چاہیے۔ ہم حکومتوں پر تنقید بھی کرتے ہیں، جب وہ اچھا کام کریں تو تعریف بھی کرتے ہیں۔ ہم پر پیکا لا نافذ کیا گیا، ہم عدالت گئے، مظاہرے کیے، لیکن صحافت سے پیچھے نہیں ہٹے۔