دیہاتیوں کے لیے یہ عجیب و غریب پل تھا، ہندوستان کے عجائبات میں شامل کر لیا گیا، لوگ دور دور سے دیکھنے آنے لگے، اسے قینچیوں والا پل بھی کہتے تھے۔

مصنف: محمد سعید جاوید
تفصیلات
قسط: 131
پْل کی تنصیب کے دوران 6 جانیں بھی ضائع ہوئیں اور کافی لوگ زخمی بھی ہوئے۔ اکثر لوگ اوپر گارڈروں پر کام کرتے ہوئے دریا میں گر جاتے اور گہرے پانیوں میں ڈوب جاتے تھے۔ حالانکہ پْل کے نیچے اور آس پاس چھوٹی بڑی کشتیاں تیرتی پھرتی تھیں تاکہ اگر کوئی بلندی سے دریا میں گر جائے تو فوری طور پر اس کی جان بچانے کی کوشش کی جا سکے۔ پْل کی تنصیب میں بھی بڑی بڑی کشتیوں اور اسٹیمروں سے بھی مدد لی گئی جنھوں نے مجوزہ پْل کے نیچے جا کر فولادی حصے اور تعمیراتی سامان اوپر پہنچایا۔
ہو جمالو
یہ اس وقت تک ہندوستان کی ریلوے کا سب سے بڑا اور پیچیدہ منصوبہ تھا۔ سیدھے سادے دیہاتیوں کے لیے یہ اتنا عظیم، دلچسپ اور عجیب و غریب پْل تھا کہ اس کو ہندوستان کے عجائبات میں شامل کر لیا گیا اور لوگ دور دور سے اس کو دیکھنے کے لیے آنے لگے۔ اس کو عام زبان میں قینچیوں والا پل بھی کہتے تھے۔
داستانیں اور لوک گیت
پھر اس وقت کی روایات کے مطابق مقامی لوگوں نے اس پر بے شمار جھوٹی سچی کہانیاں بھی گھڑ لی تھیں، جن کا کوئی سَر پیر ہی نہیں تھا، بس دیہاتی لوک فنکار ہاتھ میں اکتارہ اٹھائے ہوئے نکلتے اور ان کہانیوں کو بنیاد بنا کر گیتوں کا روپ دے دیتے اور گاؤں گاؤں پھرکر موسیقی اور رقص کے ساتھ یہ گانا پیش کیا کرتے تھے، سو اس پْل کے طفیل بہت سارے غریبوں کا چولھا جلتا رہتا تھا۔
ان لوک داستانوں میں "جمالو" کی کہانی بہت زیادہ مقبول ہوئی تھی، جو آج بھی سندھی ثقافت میں سب سے مقبول گیت مانا جاتا ہے۔ آئیے، آج آپ کو اس کہانی کا پس منظر بتاتے ہیں۔
خوف اور چیلنج
مقامی افراد کے مطابق، تکمیل کے بعد یہ پْل اتنا خطرناک نظر آتا تھا کہ اس کے اوپر سے انتہائی تجربہ کار انگریز اور ہندوستانی ڈرائیوروں نے اس خوف سے گاڑی گزارنے سے انکار کر دیا تھا، کہ کہیں بیچ راستے میں ہی یہ پْل ڈھے نہ جائے اور گاڑی بلندی سے نیچے دریا میں جا گرے۔ اس اضطراب کو لے کر گورے انجنیئر بہت پریشان تھے۔
جمالو کی کہانی
آگے چل کر کہانی نے ایک موڑ لیا جب انگریز انجینئروں کو علم ہوا کہ اس علاقے میں شیدی جمالو نام کا ایک خطرناک اور بڑا ہی جی دار بدمعاش ہے جس کو قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی جا چکی تھی اور اب وہ کال کوٹھڑی میں پڑا کسی بھی لمحے اپنی پھانسی کا منتظر تھا۔ روایت کے مطابق انجینئروں نے اسے پیش کش کی کہ اگر وہ پہلی ریل گاڑی کو پْل عبور کروا کر دریا کے اس پار لے جائے تو اس کی نہ صرف موت کی سزا معاف کر دی جائے گی بلکہ اسے انعام و اکرام سے بھی نوازا جائے گا۔ جمالو راضی ہوگیا، پھر ایک ہنگامی پروگرام کے تحت اس کو انجن اور گاڑی چلانے کے ابتدائی اسرار و رموز سمجھائے گئے۔ تربیت مکمل ہونے پر ایک چھوٹی اور خالی مال گاڑی اس کے حوالے کردی گئی، جسے وہ دی گئی ہدایات کے مطابق خراماں خراماں پْل پر سے گزار کر دوسری طرف لے گیا۔ ہر طرف سے اس کی جے جے کار ہوئی، حسب وعدہ انگریز سرکار کی طرف سے اس کی سزائے موت معاف کرکے اسے رہائی دے دی گئی اور انعام و کرام سے نوازا گیا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔