بندروں نے دوسری نسل کے بچوں کو اغوا کرنا شروع کردیا، ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ سائنسدان حیران رہ گئے۔

پانامہ سٹی میں حیران کن واقعہ
پانامہ کے ایک دور دراز جزیرے پر ایک حیران کن واقعے نے سائنسدانوں کو الجھا دیا ہے جہاں سفید چہروں والے کیپچن بندر دوسری نسل کے نوزائیدہ ہولر بندروں کو اغوا کر رہے ہیں۔ تحقیق کے مطابق ان بندروں نے 15 ماہ کے عرصے میں کم از کم 11 ہولر بندروں کے بچوں کو اغوا کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان آئی ایم ایف مذاکرات، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑے اضافے کا امکان
محققین کی ابتدائی دریافت
سی این این کے مطابق ابتدا میں محقق زوئی گولڈزبرو نے ایک ویڈیو میں سمجھا کہ ایک کیپچن بندر کی پشت پر سوار بچہ بھی کیپچن ہی ہے مگر جب اس کی رنگت مختلف نظر آئی تو معلوم ہوا کہ وہ ہولر نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ ویڈیو میں دیکھا گیا کہ ایک خاص کیپچن بندر، جسے "جوکر" کہا جاتا ہے، کئی بار ایسے بچوں کو اپنی پیٹھ پر لیے پھرتا رہا۔
یہ بھی پڑھیں: عمرکوٹ ڈسٹرکٹ ہسپتال میں سائیکل کے پمپ سے مریض کو آکسیجن دینے کی ویڈیو وائرل
بچوں کی پرورش اور موت
تاہم ان بندروں نے نہ تو ان بچوں کو کھایا، نہ ہی ان کی پرورش کی، نہ ان سے کھیلے۔ بیشتر بچے ماں کا دودھ نہ ملنے کی وجہ سے کچھ دن بعد مر جاتے۔ سائنسدانوں کو یقین ہے کہ یہ رویہ کسی "ثقافتی رواج" یا جزیرے کے ماحول کی وجہ سے پیدا ہوا ہو سکتا ہے، جہاں نہ تو کوئی شکاری جانور موجود ہیں اور نہ ہی انسانی مداخلت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاک بحریہ کے جہاز پی این ایس معاون کا افریقی ملک سیشلز کا دورہ، بندرگاہ وکٹوریہ آمد پر پرتپاک استقبال
جزیرہ جی کارون کی خاصیات
جزیرہ جی کارون جہاں یہ واقعہ پیش آیا، انسانوں سے خالی ہے اور وہاں بجلی بھی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سائنسدان وہاں کیمرا ٹریپز استعمال کرتے ہیں تاکہ بندروں کی حرکات کا مشاہدہ کر سکیں کیونکہ براہ راست مشاہدہ ممکن نہیں۔ تحقیق کے مطابق یہ سب حرکتیں نوجوان نر بندر کر رہے ہیں اور ممکن ہے کہ یہ "بے مقصد تجسس" یا بوریت کا نتیجہ ہو۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جزیرے کے ان بندروں میں ایسے "عجیب و غریب رویے" پیدا ہونا ممکن ہے کیونکہ وہاں انہیں خطرات کا سامنا نہیں۔
انسانی رویوں کی جھلک
محققین کا کہنا ہے کہ یہ رویہ انسانی رویوں کی ایک جھلک پیش کرتا ہے، جیسے انسان اکثر دوسری مخلوقات کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں جس کا کوئی خاص مقصد نہیں ہوتا، مگر اس سے نقصان ضرور ہوتا ہے۔ ماہرین کو امید ہے کہ یہ خطرناک رجحان وقت کے ساتھ ختم ہو جائے گا، یا پھر ہولر بندر اس کے خلاف کوئی ردِ عمل اپنائیں گے تاکہ اپنے بچوں کو محفوظ رکھ سکیں۔