مخصوص نشستوں سے متعلق کیس؛ سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی متفرق درخواستوں پر فیصلہ سنا دیا

سپریم کورٹ کا فیصلہ
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی متفرق درخواستوں پر فیصلہ سنا دیا۔ عدالت نے مخصوص نشستوں کے کیس کی لائیو سٹریمنگ کی اجازت دیدی جبکہ بنچ کی تشکیل پر اعتراضات کی درخواستیں مسترد کر دیں۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت 26ویں آئینی ترمیم کی درخواستوں کے فیصلے کے بعد کی جائے گی۔ مختصر فیصلہ سنایا گیا، تفصیلی حکم نامہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ عدالت نے سپریم کورٹ آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کو لائیو سٹریمنگ کے انتظامات کرنے کا حکم دیا۔
یہ بھی پڑھیں: نو مئی مقدمات: عمر ایوب، اسد عمر، اعظم سواتی کی عبوری ضمانتوں میں توسیع
نجی ٹی وی کی رپورٹ
نجی ٹی وی چینل جیونیوز کے مطابق، سپریم کورٹ آئینی بنچ میں مخصوص نشستوں کی نظرثانی درخواست پر سماعت ہوئی جو جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں لارجر بنچ نے کی۔ 12 جولائی کے فیصلے کی متاثرہ خواتین کے وکیل مخدوم علی خان کے سنی اتحاد کونسل کے اعتراضات پر دلائل مکمل ہو گئے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی ویژول ایفیکٹ آرٹسٹ لاریب عطا کی ایک اور بڑی کامیابی ہالی ووڈ فلم “مشن ایمپاسیبل دی فائنل ریکنگ” میں بطور ویژول ایفیکٹ آرٹسٹ خدمات پیش
وکیل کا نقطہ نظر
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آرٹیکل 191اے اور پریکٹس پروسیجر ایکٹ کے ہوتے ہوئے بنچ پر 1980 کے رولز لاگو نہیں ہوتے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ بتائیں سپریم کورٹ کے 1980 کے کون سے رولز نئی آئینی ترمیم سے مطابقت نہیں رکھتے؟ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ نظرثانی درخواستوں کی سماعت کی حد تک 1980 کے رولز مطابقت نہیں رکھتے۔ نئی آئینی ترمیم میں آئینی بنچ کے دائرہ اختیار کا تعین کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اہلکاروں پر تشدد کا مقدمہ: علیم خان اور شعیب صدیقی بری
بنچ کی تعداد اور اعتراضات
مخدوم علی خان نے کہا کہ 26ویں ترمیم کے بعد آئینی تشریح کے مقدمات کی نظرثانی آئینی بنچ کرے گا۔ انہوں نے بنچ میں ججز کی تعداد سے متعلق اعتراض کیا اور کہا کہ یہ 11 نہیں بلکہ 13 رکنی بنچ ہے۔ اس 13 رکنی بنچ میں سے 7 ججز کی اکثریت نظرثانی پر فیصلہ کرے گی۔
براہ راست نشریات اور ملتوی کرنے کی درخواست
اس کیس کی براہ راست نشریات سے متعلق درخواست دائر کی گئی۔ اگر عدالت براہ راست نشریات کا فیصلہ کرے بھی تو کوئی اعتراض نہیں۔ دوسری درخواست میں کہا گیا تھا کہ 26ویں ترمیم کے فیصلے تک اس کیس کو ملتوی کیا جائے۔ کون سا کیس کب لگنا ہے یہ طے کرنا عدالت کا اختیار ہے، یہ کسی کی خواہش نہیں۔ اگر درخواست منظور ہو جائے اور سماعت ملتوی ہو تو پھر یہ آئینی بنچ کوئی درخواست نہیں سن سکے گا۔