مخصوص نشستوں سے متعلق کیس؛ سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی متفرق درخواستوں پر فیصلہ سنا دیا

سپریم کورٹ کا فیصلہ
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی متفرق درخواستوں پر فیصلہ سنا دیا۔ عدالت نے مخصوص نشستوں کے کیس کی لائیو سٹریمنگ کی اجازت دیدی جبکہ بنچ کی تشکیل پر اعتراضات کی درخواستیں مسترد کر دیں۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت 26ویں آئینی ترمیم کی درخواستوں کے فیصلے کے بعد کی جائے گی۔ مختصر فیصلہ سنایا گیا، تفصیلی حکم نامہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ عدالت نے سپریم کورٹ آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کو لائیو سٹریمنگ کے انتظامات کرنے کا حکم دیا۔
یہ بھی پڑھیں: ہمیں وہ دوست بننا ہے جو آگ کے 100 امتحانوں سے گزر کر فولاد جیسے بنے ہوں، شی جن پنگ اور پیوٹن کا امریکہ کے خلاف ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان
نجی ٹی وی کی رپورٹ
نجی ٹی وی چینل جیونیوز کے مطابق، سپریم کورٹ آئینی بنچ میں مخصوص نشستوں کی نظرثانی درخواست پر سماعت ہوئی جو جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں لارجر بنچ نے کی۔ 12 جولائی کے فیصلے کی متاثرہ خواتین کے وکیل مخدوم علی خان کے سنی اتحاد کونسل کے اعتراضات پر دلائل مکمل ہو گئے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی باؤلر محمد شامی نے سابق بھارتی کرکٹر سنجے منجریکر کی سوشل میڈیا پر ’بےعزتی‘ کر دی
وکیل کا نقطہ نظر
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آرٹیکل 191اے اور پریکٹس پروسیجر ایکٹ کے ہوتے ہوئے بنچ پر 1980 کے رولز لاگو نہیں ہوتے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ بتائیں سپریم کورٹ کے 1980 کے کون سے رولز نئی آئینی ترمیم سے مطابقت نہیں رکھتے؟ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ نظرثانی درخواستوں کی سماعت کی حد تک 1980 کے رولز مطابقت نہیں رکھتے۔ نئی آئینی ترمیم میں آئینی بنچ کے دائرہ اختیار کا تعین کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گزشتہ 7سال میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کوئی کام نہیں ہوا، جسٹس منصور علی شاہ
بنچ کی تعداد اور اعتراضات
مخدوم علی خان نے کہا کہ 26ویں ترمیم کے بعد آئینی تشریح کے مقدمات کی نظرثانی آئینی بنچ کرے گا۔ انہوں نے بنچ میں ججز کی تعداد سے متعلق اعتراض کیا اور کہا کہ یہ 11 نہیں بلکہ 13 رکنی بنچ ہے۔ اس 13 رکنی بنچ میں سے 7 ججز کی اکثریت نظرثانی پر فیصلہ کرے گی۔
براہ راست نشریات اور ملتوی کرنے کی درخواست
اس کیس کی براہ راست نشریات سے متعلق درخواست دائر کی گئی۔ اگر عدالت براہ راست نشریات کا فیصلہ کرے بھی تو کوئی اعتراض نہیں۔ دوسری درخواست میں کہا گیا تھا کہ 26ویں ترمیم کے فیصلے تک اس کیس کو ملتوی کیا جائے۔ کون سا کیس کب لگنا ہے یہ طے کرنا عدالت کا اختیار ہے، یہ کسی کی خواہش نہیں۔ اگر درخواست منظور ہو جائے اور سماعت ملتوی ہو تو پھر یہ آئینی بنچ کوئی درخواست نہیں سن سکے گا۔