چڑیاولہ سے پکی سڑک اس گاؤں کو جاتی تھی، دور افق پر آزادکشمیر کی پہاڑیوں کا درشن بھی دل کو بھاتا تھا، دماغ کا کیڑ اسے چین نہیں لینے دیتا تھا۔

مصنف کی تفصیلات
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 175
یہ بھی پڑھیں: مانچسٹر پولیس نے قومی کرکٹر حیدر علی پر مقدمے کی تفصیل جاری کر دی
چڑیاولہ کا تعارف
چڑیاولہ یونین کونسل کوٹلہ ارب علی خاں سے 10 میل مغرب کی جانب واقع تھی اور اس کی سرحد آزاد کشمیر کے ضلع بھمبر سے زیادہ دور نہیں تھی۔
یہ بھی پڑھیں: شہید کی بیوہ کو دیوروں نے مالی امداد کے لالچ میں قتل کردیا
سیکرٹری کی خصوصیات
سید محفوظ حسین شاہ سیکرٹری تھے، جو ایک بڑے رکھ رکھاؤ والے اور ایماندار شخص تھے۔ ان کا مزاج نرم اور گفتگو میٹھی تھی، اور کام میں مہارت رکھتے تھے۔ یہ وہ سیکرٹریوں کی ایک کلاس سے تعلق رکھتے تھے جنہیں "رولر ڈولپمنٹ ورکرز" (آر ڈی ڈبلیو) کہا جاتا ہے۔ انہیں سال بھر کی تربیت کے بعد ہی فیلڈ میں بھیجا جاتا تھا۔ بہت سے رولر ڈولپمنٹ ورکرز جیسے لالہ نذر، خان محمد، محمد اسلم اور لالہ اعجاز اب بھی لالہ موسیٰ میں بطور سیکرٹری خدمات انجام دے رہے تھے۔ وہ اپنے کام میں ماہر اور گفتار میں بھی نازک تھے۔ خوش قسمتی سے، میرے کیریئر کے آغاز میں مجھے ایسے لوگوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔
یہ بھی پڑھیں: سوشل میڈیا پر ترجمان افواج پاکستان کے منفرد انداز کے چرچے، فوجی حکام کا بھارت کو جواب ٹاپ ٹرینڈ بن گیا
ڈی سی کا دورہ
چوہدری فتح خاں چیئرمین یونین کونسل تھے۔ جب میں نے ڈی سی کے دورے کا پروگرام دیکھا تو خود سب انجینئر ممتاز عزیز کے ساتھ چڑیاولہ چلا گیا۔ یونین کونسل ہیڈ کواٹرز سے 5 کلو میٹر دور "آدم چوہان" نامی گاؤں میں زکوٰۃ کواٹرز زیر تعمیر تھے۔ ان دنوں چڑیاولہ جانا آسان کام نہیں تھا، بیس پچیس کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے میں دو اڑھائی گھنٹے لگتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: عرب ملازم کا خاتون ساتھی کو چومنا، امارات میں مہنگا ثابت ہوا
جانچ کا موقع
سیکرٹری یونین کونسل بھی سائیٹ پر موجود تھے۔ اس سائیٹ کا ٹھیکیدار گجرات کا رہائشی سیکرٹری یونین کونسل صغیر احمد (جو بعد میں میرے ماتحت بھی رہا) تھا۔ یہ ملک عظیم کا رشتہ دار تھا اور یہ ٹھیکہ اس نے اپنے بھائی کے نام سے لیا تھا۔ کچھ سرکاری افسر اپنے کار خاص کے ذریعہ سرکاری ٹھیکے حاصل کرتے تھے، خوب پیسے کماتے اور ان کے بل بھی نہیں رکتے تھے۔ میں نے ان زیر تعمیر کواٹرز کا معائنہ کیا اور ممتاز کو اپنی observations سے آگاہ کیا۔ اس کے دماغ کا کیڑا "I am the engineer" اسے چین نہیں لینے دیتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سردار اخترمینگل کو کوئٹہ سے دبئی جانے والی پرواز سے اتار دیا گیا
غیر موزوں جگہ کا انتخاب
میں نے اسے کہا, "آپ پھر بھی چیک کر لیں کہ سب کام دی گئی specifications کے مطابق ہے۔" وہ بولا, "آپ فکر نہ کریں۔" میں نے اپنے نوٹس معائنہ رجسٹر پر بھی لکھ دیئے جو سیکرٹری یونین کونسل کے پاس تھا۔ یہ سائیٹ دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ کس نے ان زکوٰۃ کواٹروں کے لئے ایسی ویران اور بیابان جگہ کا انتخاب کیا جہاں کسی بیوہ، کسی لاچار یا کسی غریب لاوارث نے زندگی گزاری۔ نہ پانی قریب تھا، نہ آبادی، اور بجلی کا تو سوال ہی نہ تھا۔
یہ بھی پڑھیں: دبنگ گرل سوناکشی سنہا نے بھارتی میڈیا کو کھری کھری سنا دیں
منصوبہ بندی کی کمزوری
ہم ایک بات میں دنیا میں سب سے آگے ہیں؛ "ڈنگ ٹپاؤ مائنڈ سیٹ میں۔" یہ اس کی ایک مثال ہے۔ میری ذمہ داری کے علاقے میں دو بنیادی مراکز صحت ایسی جگہوں پر تعمیر کیے گئے تھے جو مختلف یونین کونسلز میں تھے لیکن ان کا درمیانی فاصلہ ایک کلو میٹر سے بھی کم اور آبادیوں سے دور ویرانے میں تھے۔ نہ مقامی لوگوں کی پہنچ آسان تھی اور نہ ہی کوئی ڈاکٹر اس ویرانے میں ڈیوٹی کرنے کو راضی تھا۔ اب کون کسی عقل کے اندھے کو سمجھائے کہ کم از کم جگہ کا انتخاب کرتے ہوئے کچھ زحمت کر کے سائیٹ چیک کر لو۔ بدقسمتی ہے کہ جس کے پاس بھی منصوبہ بندی کا اختیار تھا، وہ اپنے دفتر میں بیٹھا افسری دکھاتا تھا۔ فلاسفی کا ایک اصول ہے کہ "انسان کی خصلت کچھ عرصہ بعد اس کی عادت بن جاتی ہے۔" اب یہ سب کچھ ہماری عادت بن چکا ہے جو آسانی سے تھوڑا کم نہیں ہوگا۔
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔