شریعت کورٹ تعیناتی کا ججز کے تبادلے سے کیا تعلق؟ جسٹس محمد علی مظہر کا وکیل فیصل صدیقی سے استفسار

سپریم کورٹ میں ججز ٹرانسفر سے متعلق کیس
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) سپریم کورٹ میں ججز ٹرانسفر سے متعلق کیس میں جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ شریعت کورٹ کی تعیناتی کا ججز کے تبادلے سے کیا تعلق ہے؟ ہائیکورٹ سے جج کی شریعت کورٹ میں تعیناتی کا درجہ اوپر ہے، جبکہ دو ہائیکورٹس کے درمیان جج کا تبادلہ برابر حیثیت رکھتا ہے۔
کیس کی سماعت
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں ججز ٹرانسفر سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بنچ نے سماعت کی۔ سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے بیان دیا کہ بھارت میں ججز کے تبادلے پر رضا مندی نہیں پوچھی جاتی۔
جوڈیشل کمیشن کی ضرورت
انہوں نے مزید کہا کہ جوڈیشل کمیشن کے لیے ججز کی تقرری ضروری ہے جبکہ صدر پاکستان کے لیے جج کا تبادلہ کرنا ضروری نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ صدر کو جج کے تبادلے پر کیسے انفورس کیا جا سکتا ہے؟
دلائل کی وضاحت
جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ دلائل ججز کے تبادلے تک محدود رکھیں۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ آپ نے کہا تھا ججز ٹرانسفر پر صدر کے اختیار کو نفی نہیں کرتے۔ جسٹس صلاح الدین نے کہا کہ آپ نے سنیارٹی کے نکتے پر فوکس کرنے کا کہا تھا۔
وقت کی قید
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میرا نکتہ یہ ہے کہ جج کا تبادلہ وقت کے محدود ہے، فیڈرل شریعت کورٹ میں ہائیکورٹس سے ججز تعینات ہوتے ہیں اور شریعت کورٹ میں ججز کی تعیناتی 3 سال کے لیے ہوتی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ شریعت کورٹ کی تعیناتی کا ججز کے تبادلے سے کیا تعلق؟ ہائیکورٹ سے جج کی شریعت کورٹ میں تعیناتی کا درجہ اوپر ہے، جبکہ دو ہائیکورٹس کے درمیان جج کا تبادلہ برابر حیثیت رکھتا ہے۔