بھارت بیروزگاروں کا ملک بن گیا، 10 کروڑ نوجوانوں نے مایوس ہو کر کام کی تلاش ہی ترک کردی
بھارت میں نوجوانوں کی بے روزگاری کی صورت حال
نئی دہلی (ڈیلی پاکستان آن لائن) بھارت میں نوجوانوں کی بڑی تعداد روزگار کی تلاش میں ہے، جبکہ کروڑوں افراد، بالخصوص خواتین، اب نوکری ڈھونڈنے کی کوشش بھی نہیں کرتیں۔ اس وقت ملک میں تقریباً 28 ملین پڑھے لکھے نوجوان نوکری کی تلاش میں ہیں جبکہ تقریباً 10 کروڑ نوجوان جن میں اکثریت خواتین کی ہے، نے کام کی تلاش ہی ترک کر دی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ اور نیتن یاہو قریبی دوست، یوکرین کی جنگ روکنا ترجیح ہوگی، ملیحہ لودھی
کام کرنے کی آبادی کا تناسب
نئی تحقیق کے مطابق ملک میں کام کرنے کے قابل آبادی کے تناسب میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار میں ملازمت کی تعریف میں وہ کام بھی شامل ہے جس میں کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا، جیسے کہ گھر کے افراد کے ساتھ بلا معاوضہ کام، جسے عالمی سطح پر روزگار کا بدترین زمرہ سمجھا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کاش ہم قید ہی کر لیتے وہ جاتا لمحہ۔۔۔
لیبر فورس میں کمی
بھارت میں 2004-05 میں کام کرنے والی آبادی کا تناسب 42 فیصد تھا، جو 20178 میں کم ہو کر 35 فیصد تک آ گیا، بعد ازاں کچھ بہتری کے بعد یہ 41 فیصد تک پہنچا۔ لیکن یہ بہتری سطحی ہے کیونکہ نوجوان بڑی تعداد میں لیبر فورس سے ہی خارج ہو رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ہفتے کے آخر میں سونے کی قیمتوں میں بڑا اضافہ، فی تولہ سونا 3 لاکھ 59 ہزار 800 روپے کا ہوگیا
معاشی ترقی کی مشکلات
دی وائر کے مطابق 1980 کی دہائی سے بھارت کو آبادیاتی فائدہ حاصل ہونا شروع ہوا تھا، یعنی کام کرنے کی عمر کے افراد کی شرح بڑھی، لیکن اسے معیشت میں مکمل طور پر سمیٹا نہ جا سکا۔ 2003 سے 2015 کے دوران بھارت کی معیشت اوسطاً 7.8 فیصد کی شرح سے ترقی کر رہی تھی لیکن 2014 سے 2024 کے درمیان یہ شرح گر کر 5.8 فیصد رہ گئی۔ اس کے باعث نہ صرف روزگار کے مواقع کم ہوئے بلکہ اقتصادی ڈھانچے میں تبدیلی کا عمل بھی متاثر ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: ڈائریکٹر جنرل سپورٹس پنجاب خضر افضال چودھری سے کامن ویلتھ گیمز کے چمپئن نوح دستگیر بٹ کی نیشنل ہاکی سٹیڈیم میں ملاقات
بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح
سنہ 2014 میں جب موجودہ حکومت اقتدار میں آئی، اس وقت 15 سے 59 سال کی عمر کے افراد میں بے روزگاری کی شرح 2.2 فیصد تھی، جو 20178 تک بڑھ کر 6.1 فیصد ہو گئی، یہ 45 سالہ تاریخ میں بلند ترین سطح ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی میں امن مارچ کے دوران ہنگامہ آرائی، گرفتار 20 ملزمان کو جیل بھیج دیا گیا
زراعت اور صنعت کے شعبے میں تبدیلی
اسی دوران زراعت سے نکل کر صنعت و تعمیرات کی طرف جانے والے مزدوروں کا عمل بھی رک گیا، بلکہ اس کا رخ الٹا ہو گیا۔ زراعت میں کام کرنے والوں کا تناسب جو کم ہو رہا تھا، وہ 20189 میں 42 فیصد تھا مگر 2023-24 تک بڑھ کر 46 فیصد تک پہنچ گیا۔ صنعتی شعبے میں روزگار کا حصہ 2012 میں 12.8 فیصد سے کم ہو کر 2024 میں 11.5 فیصد ہو گیا۔
یہ بھی پڑھیں: سونا 7ہزار 700روپے مہنگا، فی تولہ قیمت کتنی ہو گئی؟ جانیے
تعلیمی بحران اور عمر رسیدہ ورک فورس
بھارت میں تقریباً 90 کروڑ افراد کام کرنے کی عمر میں ہیں، مگر صرف 61 کروڑ افراد لیبر فورس کا حصہ ہیں، جن میں سے 33 کروڑ غیر زرعی شعبوں میں کام کرتے ہیں۔ زراعت سے وابستہ 28 کروڑ افراد میں بڑی تعداد بلا معاوضہ خاندانی مزدوروں کی ہے۔ تعلیم یافتہ مگر بے روزگار نوجوانوں کے ساتھ ساتھ 15 کروڑ نوجوان اس وقت تعلیم یا تربیت میں مصروف ہیں، جنہیں مستقبل میں ملازمتوں کی شدید ضرورت ہوگی۔
نوجوانوں کی شمولیت میں کمی
نوجوانوں کی لیبر فورس میں شرکت کی شرح مسلسل کم ہو رہی ہے۔ 2004-05 میں 15 سے 24 سال کی عمر کے افراد کی روزگار میں شراکت 53 فیصد تھی، جو 20178 میں 31 فیصد تک گر گئی۔ اگرچہ یہ شرح 2022-23 میں بڑھ کر 40 فیصد ہوئی، لیکن نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اب روزگار کی تلاش ہی چھوڑ چکی ہے، یعنی وہ ’مایوس مزدور‘ بن چکے ہیں۔ یہ تمام حقائق بھارت کی موجودہ اقتصادی اور سماجی صورتحال میں گہرے مسائل کی نشان دہی کرتے ہیں، جہاں ترقی، روزگار اور تعلیمی ڈھانچے کی ہم آہنگی قائم نہیں ہو پا رہی۔








