قلمی دوستی کا شوق انٹرمیڈیٹ تک رہا، بعد میں مصروفیات کی زیادتی کے باعث یہ سلسلہ ختم ہو گیا، آسام کی مسلم طالبہ سے دوستی 10 سال رہی جو محبت میں تبدیل ہو گئی۔

مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 45
یہ بھی پڑھیں: معرکہ حق میں تاریخی فتح، کل ملک بھر میں یوم تشکر منانے کا اعلان
قلمی دوستی کا شوق
میں کوارڈینگل ہاسٹل کے ریڈنگ روم میں دیگر جرائد کے ساتھ السٹریڈویکلی آف انڈیا کو بھی کافی دلچسپی سے دیکھا کرتا تھا۔ اس انگریزی جریدے میں میرا (Patriotism) حب الوطنی کے عنوان سے چھوٹا سا آرٹیکل چھپا تھا جس میں میرا ایڈریس بھی نام کے ساتھ سٹوڈنٹ فرسٹ ائیر گورنمنٹ کالج کوارڈینگل ہوسٹل لاہور پاکستان چھپا تھا۔
اس ایڈریس پر مجھے بہت سے قلمی دوستی کے خطوط آئے جن میں غیر ملکی خطوط زیادہ تھے۔ مجھے فن لینڈ، انگلینڈ، کینیڈا، جرمنی اور انڈیا سے بھی لڑکے/ لڑکیوں کے خطوط آئے۔ میرا قلمی دوستی کا شوق انٹرمیڈیٹ تک رہا، بعد میں مصروفیات کی زیادتی کے باعث یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ سوائے شلانگ آسام انڈیا سے نویں کلاس کی ایک مسلم طالبہ سے میری دوستی تقریباً 10 سال رہی اور یہی دوستی محبت میں تبدیل ہو گئی۔
یہ بھی پڑھیں: ہوئے نہ لفظ ترے تیر یا کمند ہوئے۔۔۔
سیکرٹری کوارڈینگل ہوسٹل منتخب ہونا
1959-60 کوارڈینگل ہاسٹل میں ہمارا دوسرا سال شروع ہو چکا تھا۔ ہوسٹل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے عہدیداران کا انتخاب ہر سال اکتوبر کے پہلے ہفتے میں ہوتا ہے۔ دوستوں کے مشورے سے میں سیکرٹری کے عہدے کے لئے اْمیدوار تھا۔ میرے مدِ مقابل سردار شیر افگن، جو سنٹرل ماڈل سکول لاہور سے تعلق رکھتے تھے، بڑے مضبوط اْمیدوار تھے۔ عام خیال یہی تھا کہ وہی کامیاب ہونگے۔
اللہ کا کرم ایسا ہوا کہ ہماری الیکشن مہم تیزتر ہوتی گئی۔ میرے دوستوں جاوید مشرف، ریاض ملک، فلک شیر، عبدالرشید خان، راؤ راشد، راجہ محمد اکرم اور میرے گیارہویں جماعت کے روم میٹس فرزند علی حسرت، محمد اکرم خان نے بڑی انہماک سے میرے لئے زور دار انتخابی مہم چلائی۔ ہاسٹل کے مکینوں سے میرے ذاتی رابطے نے بھی بڑا کام کیا یہاں تک کہ میرے مخالف شیرافگن کے روم میٹس چوہدری جاوید اکبر اور دیگر نے میرے حق میں ووٹ ڈالا اور اللہ نے الیکشن میں مجھے واضح کامیابی سے نوازا۔
دوستوں نے ہمیں پھولوں کے ہار پہنا کر کندھوں پر اٹھایا اور "رانا امیر زندہ باد" کے نعرے لگاتے ہوئے ہاسٹل کا راؤنڈ کر کے الیکشن کی جیت کا جشن منایا۔ الیکشن کے نتائج کا اعلان ہونے کے تھوڑی دیر بعد سپرنٹنڈنٹ ہاسٹل ڈاکٹر محمد اجمل اور چیف پریفکٹ حفیظ اللہ اسحاق نے ہم نو منتخب عہدیداروں کو ہاسٹل میں سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں بلایا۔ چائے، بسکٹ سے ہماری تواضع کی اور ہمیں الیکشن جیتنے کی مبارکباد دی۔
کوارڈینگل ہاسٹل میں میرا قیام بہت خوش کن تھا۔ ہمارے ہاسٹل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر محمد اجمل کا شمار ملک کے نامور ماہر نفسیات اور دانشوروں میں ہوتا تھا۔ ہاسٹل کے منتخب سیکرٹری کی حیثیت میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کافی انٹریکشن (تبادلہ خیال) کا موقع ملا۔ وہ کبھی کبھی رات 10 بجے چیف پریفکٹ کے ہمراہ ہمارے کمروں کا بھی راؤنڈ کیا کرتے تھے۔ وہ ہاسٹل میں رہنے والے ہر طالب علم کی سرگرمیوں پر نظر رکھتے تھے۔
پریفکٹ حفیظ اللہ اسحاق جو بعد میں سی ایس پی آفیسر بنے، ڈپٹی کمشنر، کمشنر، فیڈرل/صوبائی سیکرٹری اور دیگر اعلیٰ عہدوں پر رہے، اور اچھے ایڈمنسٹریٹر جانے گئے۔ لیکن اْس وقت ہاسٹل مکینوں میں وہ بطور ایڈمنسٹریٹر پسندیدہ نہ تھے، کیونکہ ہاسٹل طلباء ان کے سخت ڈسپلن اور جرمانہ پالیسی سے سخت ناراض تھے۔ پریفکٹ صاحب ایک آدھ گھنٹہ لیٹ ہو جانے پر جو جرمانے کرتے تھے اُس سے ہاسٹل مکینوں کا بجٹ خراب ہوتا تھا اور انہیں اپنے والدین سے مزید رقم مانگنا پڑتی تھی۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)، ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔