زندگی میں اتنی دلیری سے گفتگوکرتے نہیں سنا تھا، سفید پوش بابے کی بات ختم ہوئی، ہر طرف سناٹا تھا، شرمندگی سے رنگ فق،کچہری ختم، نظریں جھکی تھیں

مصنف کی تفصیل
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 177
یہ بھی پڑھیں: ڈھاکہ یونیورسٹی میں علامہ اقبال کا یوم ولادت جوش و خروش سے منایا گیا
چائے کا وقفہ
ہم واپس آئے اور چائے کے لئے رکے۔ اس کمرے میں چار ہی شخص تھے: ڈی سی، راجہ یعقوب، چوہدری فتح اور میں۔ ڈی سی مجھے کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن راجہ صاحب نے اس کا کندھا دبا دیا۔ راجہ یعقوب سینئر افسر تھے۔ انہیں اس بات کا ادراک تھا کہ اگر کوئی الٹی سیدھی بات ڈی سی نے کی تو جواب بھی سنانا پڑے گا۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب پولیس کے 2 شیر دل جوانوں کا نہتے غریب مزدور پر بیچ چورہے تشدد، شرمناک ویڈیو بھی سامنے آگئی
ڈی سی کا سوال اور چوہدری ریاض کا جواب
ڈی سی ہر پراگرس میٹنگ میں راجہ یعقوب سے ایک سوال ضرور پوچھتا تھا: "راجہ صاحب! کتنے کوارٹر مکمل ہو چکے ہیں اور کتنے باقی ہیں؟" میں نے ریاض صاحب سے پوچھا: "باس! اس کا کیا مطلب تھا؟ یہ سوال راجہ صاحب سے ہی کیوں کرتا ہے؟" انہوں نے زور دار قہقہہ لگا یا اور کہا: "واہ بھولے بادشاہ! اس کا مطلب ہے کہ کتنے کوارٹروں سے کمیشن وصول ہو گیا اور کتنے کا باقی ہے؟"
یہ بھی پڑھیں: ن لیگ اور پی پی رہنماوں کی ملاقات، ورکنگ ریلیشن شپ بہتر بنانے پر اتفاق
چکوڑی شیر غازی کی کھلی کچہری
میری ڈی سی سے اگلی ملاقات "چکوڑی شیر غازی" یونین کونسل کی کھلی کچہری میں ہوئی۔ یہاں بھی اس کی وہی رٹی ہوئی تقریر سننے کو ملی اور ڈی سی کا پی اے اکرم اُسی انداز میں اپنے ساتھ آنے کی قیمت وصول کرتا رہا۔ ان کی رٹی رٹائی تقریر منڈی بہاؤالدین میں ان کے لئے انتہائی شرمندگی کا باعث بنی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کی اڈیالہ جیل سے منتقلی کی افواہوں پر جیل ذرائع کی وضاحت آگئی
منڈی بہاؤالدین میں سبکی
ہوا یوں کہ وہ منڈی بہاؤالدین بھی ایسی ہی کھلی کچہری میں اپنا رٹا ہوا پیغام دھرا رہا تھا کہ حاضرین میں سے ایک پچاس پچپن سالہ بابا اٹھا اور کہنے لگا: "جناب! مجھے کچھ عرض کر ناہے۔" ڈی سی نے جواب دیا: "جی جی بابا جی بولیں۔" وہ کہنے لگا: "جناب امید ہے آپ میری بات کا برا نہیں منائیں گے اور میری سچ بات غور سے سنیں گے۔" ڈی سی بولے: "جی جی بابا جی بتائیں کیا شکایت ہے؟" بابا جی بولے: "جناب! مجھے آپ کے محکمے یعنی محکمہ مال سے شکایت ہے۔ اگر پٹواری گرداور کے پاس جائیں تو ان کی رکھی پلیٹ بھریں تو وہ بات سنتے ہیں۔ اگر تحصیل دار کے پاس جائیں تو اس کی دیگچی میں کچھ ڈالیں تو اُسے آنے والا دکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح اگر اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر جائیں تو اُس کے پاس تھال رکھا ہوتا ہے اور اگر جناب کے دفتر جائیں تو وہاں رکھی دیگ میں کچھ ڈالیں تو بات بنتی ہے۔"
یہ بھی پڑھیں: انڈیا میں مسجد کے سروے کے دوران چار افراد ہلاک: مسلمانوں کو یکطرفہ نشانہ بنایا گیا، ہم میں پولیس کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں
ڈی سی کا ردعمل
"ویسے جناب کے پاس مونگ ریسٹ ہاؤس (یہ عمدہ ریسٹ ہاؤس تھا اور ڈی سی اکثر یہاں اپنی شامیں رنگین کیا کرتا تھا) سے وقت ملے تو آپ کو دکھائی دے ضلع میں کیا ہورہا ہے؟ بیچارے پٹواری، سیکرٹری یونین کونسل کو معطل کرکے آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ ابھی آپ کے پیچھے بیٹھا آپ کے دفتر کا بندہ پٹواری اور دوسرے چھوٹے اہلکاروں سے پیسے لے رہا ہے۔" میں نے زندگی میں اتنی دلیری سے کی گئی گفتگو، وہ بھی اُس زمانے کے ڈی سی کے منہ پر کرتے کسی کو نہیں سنا تھا۔ اس سفید پوش بابے کی بات ختم ہوئی تو ہر طرف سناٹا تھا۔ شرمندگی سے ڈی سی کا رنگ فق ہو گیا۔ کچہری ختم ہوئی۔ ڈی سی کی نظریں جھکی تھیں۔ روانگی سے پہلے بابے کو ڈی سی کی جیپ میں بٹھایا اور منڈی بہاؤالدین سے بیس پچیس میل دور جا اتارا۔ بابے نے جاتے ہوئے کہا: "جناب! میرے پاس تو واپسی کا کرایہ بھی نہیں خیر میں تو گھر پہنچ ہی جاؤں گا لیکن آپ عمر بھر یاد رکھیں گے کہ کسی غریب آدمی نے آپ کو وہ آئینہ دکھایا تھا جو آپ نہ دیکھنا چاہتے تھے اور نہ ہی سننا۔ اپنی سوچ بدلیں۔" (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔