خاتون نے 44 سال بعد اپنے بیٹی کو ڈھونڈ لیا، 6 سالہ بچی کو اغوا کرکے کیسے امریکہ بھیجا گیا؟ دل دہلا دینے والی کہانی سامنے آگئی

کوریائی ماں کی 44 سالہ تلاش
واشنگٹن (ڈیلی پاکستان آن لائن) جنوبی کوریا سے تعلق رکھنے والی ہان تائی سون نے 44 سال بعد اپنی اس بیٹی کو تلاش کیا ہے جسے 1975 میں سیول سے اغوا کر کے امریکہ بھیج دیا گیا تھا۔ ہان تائی سون اب جنوبی کوریائی حکومت پر مقدمہ کر رہی ہیں کہ وہ اپنی بیٹی کو غیر قانونی طور پر گود لینے سے روکنے میں ناکام رہی۔ وہ ان سینکڑوں افراد میں شامل ہیں جنہوں نے حالیہ برسوں میں جنوبی کوریا کے بیرون ملک گود لینے کے متنازعہ پروگرام میں دھوکہ دہی، غیر قانونی گود لینے، اغوا اور انسانی سمگلنگ کے سنگین الزامات لگائے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ہرنائی میں جھڑپ، 3 دہشتگرد ہلاک، میجرسمیت 2 جوان شہید
چاہت اور تنازعہ
بی بی سی کے مطابق جنوبی کوریا وہ واحد ملک ہے جس نے 1950 کی دہائی سے اب تک ایک لاکھ 70 ہزار سے دو لاکھ بچے بیرون ملک گود لینے کے لیے بھیجے ہیں، جن میں سے زیادہ تر مغربی ممالک کو بھیجے گئے ہیں۔ مارچ میں ایک اہم انکوائری میں انکشاف ہوا کہ پے در پے حکومتوں نے نگرانی کی کمی کی وجہ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے، جس سے نجی ایجنسیوں کو منافع کے لیے بچوں کو "برآمد" کرنے کی اجازت ملی۔
یہ بھی پڑھیں: گیس پریشر میں کمی کی افواہوں پر سوئی نادرن کی وضاحت آگئی، خبریں بے بنیاد قرار
ہان تائی سون کی اُس بیٹی کی کہانی
ہان تائی سون نے 44 سال اپنی بیٹی کی تلاش میں گزارے اور اب حکومت سے ذمہ داری کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ ان کی بیٹی کیونگ ہا، جو اس وقت چھ سال کی تھی، کو ایک نامعلوم خاتون نے اغوا کر کے یتیم خانے میں چھوڑ دیا تھا اور بعد میں اسے غلط دستاویزات کے ساتھ امریکہ بھیج دیا گیا۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ کیونگ ہا کو غلط کاغذات دیے گئے تھے، جس میں اسے ایک لاوارث یتیم ظاہر کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: نوشہرہ میں زہریلی شراپ پینے سے 6 افراد ہلاک، 9 کی حالت غیر
تاریخی پس منظر
یہ معاملہ اکیلا نہیں ہے۔ 1950-53 کی کوریائی جنگ کے بعد جنوبی کوریا میں بڑے پیمانے پر یتیم بچے موجود تھے۔ نجی گود لینے والی ایجنسیوں نے حکومت کی ملی بھگت سے اس پروگرام کو منافع بخش کاروبار بنا لیا۔ 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں بچوں کو بیرون ملک بھیجنے کی تعداد میں اضافہ ہوا، 1985 میں 8800 سے زیادہ بچے بھیجے گئے۔ رپورٹ کے مطابق غیر ملکی ایجنسیوں نے بچوں کے لیے کوٹے مقرر کیے تھے جو کوریائی ایجنسیوں نے پورا کیا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے امریکی ناظم الامور کی ملاقات، پاک بھارت کشیدہ صورتحال پر تبادلہ خیال
درپیش چیلنجز
رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ بعض اوقات ایجنسیوں نے والدین کو بتایا کہ ان کے بچے بیمار ہو کر مر گئے جبکہ وہ زندہ تھے اور انہیں گود لینے کے لیے لے جایا گیا۔ دستاویزی خامیوں اور غلط معلومات نے بعد میں گود لیے گئے بچوں کے لیے اپنے حقیقی والدین کو تلاش کرنا انتہائی مشکل بنا دیا۔
حکومتی اقدامات
جنوبی کوریا کی حکومت نے 2012 میں گود لینے کے قوانین میں اصلاحات کیں اور جولائی میں مزید تبدیلیاں نافذ کی جائیں گی تاکہ بیرون ملک گود لینے کو کم سے کم کیا جا سکے اور تمام معاملات کو حکومت کے زیر انتظام لایا جا سکے۔ تاہم ہان تائی سون جیسے متاثرین اب بھی اس صدمے سے نبرد آزما ہیں۔ ان کی بیٹی اب زیادہ تر کوریائی بھول چکی ہے اور وہ انگریزی نہیں جانتیں، جس کی وجہ سے ان کے درمیان رابطے میں مشکلات حائل ہیں۔