جب بیوی زیادہ کمانے لگے تو مرد اداس کیوں ہوجاتے ہیں؟

مردوں کی ذہنی صحت پر اثرات
لندن (ڈیلی پاکستان آن لائن) جب بیویاں اپنے شوہروں سے زیادہ کمانا شروع کر دیتی ہیں تو مردوں کو اداسی اور ذہنی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں، جن میں معاشرتی توقعات اور مرد کے کمانے والے ہونے کا روایتی کردار شامل ہیں۔ یہ صورتحال ان کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچا سکتی ہے اور انہیں بے اختیار محسوس کروا سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شیخوپورہ: ڈکیتی مزاحمت پر فائرنگ، سالگرہ سے واپس آنے والے 2 بھائی جاں بحق
معاشرتی تنقید اور مردانگی کی چالنجنگ
بی بی سی کے مطابق روایتی طور پر معاشرے میں مرد کو خاندان کا بنیادی کفیل سمجھا جاتا ہے۔ جب بیوی زیادہ کمانا شروع کر دیتی ہے، تو یہ مرد کی مردانگی اور خود کی شناخت کو چیلنج کر سکتا ہے۔ خاص طور پر اگر مرد اپنی نوکری کھونے یا جگہ کی تبدیلی کی وجہ سے نادانستہ طور پر گھر پر رہنے والے والد بن جائیں، تو انہیں لگتا ہے کہ وہ اپنے "کمانے والے" کے کردار کو پورا نہیں کر پا رہے۔ اس صورتحال میں مردوں کو معاشرے یا خاندان کی طرف سے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ کچھ مرد تو اپنی مردانہ شناخت کو دوبارہ ثابت کرنے کے لیے بے وفائی کا راستہ بھی اختیار کر سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: شاختیں و علامتیں آپ کے بچپن کی یادگاریں ہیں، جس چیز کو اپنی نگاہوں سے دیکھنا چاہتے ہیں، ہمیں عین وہی نظر آتی ہے حتیٰ کہ آئینوں میں بھی.
ذہنی صحت میں اضافہ ہونے والی مشکلات
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جب بیویاں اپنے شوہروں سے زیادہ کمانے لگتی ہیں تو مردوں میں ذہنی صحت کے مسائل میں اضافہ ہوتا ہے۔ سویڈن میں ہونے والی ایک تحقیق میں ایسے مردوں میں ذہنی صحت کے مسائل میں 11 فیصد تک اضافے کا مشاہدہ کیا گیا جن کی بیویاں زیادہ کمانے لگی تھیں۔ اس کے علاوہ، بے روزگار مردوں میں بے روزگار خواتین کے مقابلے میں افسردگی کی شرح زیادہ ہوتی ہے، کیونکہ خواتین کے پاس کام سے باہر مضبوط سماجی روابط زیادہ ہوتے ہیں، جبکہ گھر پر رہنے والے والد خود کو زیادہ تنہا محسوس کر سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: افواجِ پاکستان دشمن کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے رہی ہیں: سیکیورٹی ذرائع
مالی طاقت اور تعلقات میں عدم اطمینان
پیسے کا تعلق براہ راست طاقت سے ہوتا ہے۔ جب مرد گھر میں سب سے زیادہ کمانے والے نہیں رہتے، تو گھر کے اندر طاقت کا توازن بدل سکتا ہے، جس سے تعلقات میں عدم اطمینان پیدا ہو سکتا ہے اور طلاق کا امکان بھی بڑھ سکتا ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ بہت سے خاندانوں میں جہاں عورت کمانے والی ہے، وہاں معاشی دباؤ زیادہ ہو سکتا ہے کیونکہ صنفی اجرت کے فرق کی وجہ سے خواتین کی آمدنی عام طور پر مردوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عدلیہ کی بحالی اور کارکنوں کی آزادی تک جدوجہد جاری رہےگی، عمران خان
تبدیلی کی راہیں
ان چیلنجوں کے باوجود رویے آہستہ آہستہ بدل رہے ہیں۔ "نگہداشت کرنے والی مردانگی" (caring masculinities) کا تصور فروغ پا رہا ہے، جس میں مرد نگہداشت اور ہمدردی جیسے کرداروں کو اپنا رہے ہیں۔ پیٹرنٹی کی چھٹیوں (paternity leave) جیسی پالیسیاں بھی والد کو بچوں کی دیکھ بھال میں زیادہ حصہ لینے کی ترغیب دے رہی ہیں، جس سے ازدواجی اطمینان اور خاندانی تعلقات مضبوط ہو رہے ہیں۔ یہ خواتین کو بھی اپنے کیریئر کو مزید کامیابی سے جاری رکھنے میں مدد دے رہا ہے۔
موجودہ چیلنجز اور مستقبل
اس کے باوجود نوجوان نسل میں کچھ مردوں کے رویوں میں اب بھی رکاوٹیں موجود ہیں، جو صنفی مساوات کے بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں۔ فیمینزم اور مردانگی کے بارے میں کھلی گفتگو ضروری ہے تاکہ مرد بدلتے ہوئے معاشرتی کرداروں سے ہم آہنگ ہو سکیں اور پرانے خیالات کو چیلنج کر سکیں۔