خیر پور انگریزوں کے زمانے میں آزاد ریاست تھی، حکمران تالپور کے نواب تھے، پاکستان بن جانے کے بعد نوابوں نے ریاست کو پاکستان میں شامل کر لیا

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 137
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کے ناراض امیدوار دستبردار نہیں بھی ہوئے تو۔۔۔؟ طلحہ محمود نے اگلی حکمت عملی بتا دی
ریاست خیرپور کی تاریخ
خیر پور، انگریزوں کے زمانے میں ایک آزاد ریاست کے طور پر موجود تھی جہاں کے حکمران تالپور کے نواب تھے۔ پاکستان کے قیام کے بعد، ان نوابوں نے اپنی ریاست خیرپور کو پاکستان کے ساتھ شامل کر لیا۔ یہ ون یونٹ بننے کے بعد مغربی پاکستان کا حصہ بن گئی اور پھر اس کے ٹوٹنے کے بعد صوبہ سندھ میں شامل ہو گئی۔ ان نوابوں کے بنائے ہوئے محلات، جن میں فیض محل بھی شامل ہے، آج بھی اپنی آن بان اور شان کے ساتھ موجود ہیں۔ پوری پاکستان سے سیاح ان عمارتوں کی خوبصورتی دیکھنے کے لیے خیرپور کا رخ کرتے ہیں۔ یہاں عبدا لطیف بھٹائی کے نام سے ایک یونیورسٹی کے علاوہ بلند پائے کے سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے بھی ہیں۔ یہ سندھ میں کاروباری سرگرمیوں اور صنعت و حرفت کا بھی ایک بڑا مرکز ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نہایت افسوسناک واقعہ: دریائے راوی میں ڈوب کر 3 بچے جاں بحق، وزیراعلیٰ مریم نواز کا گہرے دکھ کا اظہار
روہڑی جنکشن کی اہمیت
روہڑی، پاکستان ریلوے کا ایک انتہائی اہم جنکشن ہے اور اس نے پاکستان میں ریلوے کی ترویج اور استحکام میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ قریبی شہر سکھر ریلوے کا ڈویژنل ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ یہاں پہنچ کر تمام گاڑیوں، خصوصاً مرکزی لائن پر جانے والی مسافر گاڑیوں کا عملہ تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس ریلوے لائن پر چلنے والی تمام گاڑیاں یہاں لازماً ٹھہرتی ہیں۔ جب تک لینس ڈاؤن پل نہیں بنا تھا، تو پشاور سے کراچی یا کوئٹہ جانے والی ریل گاڑی یہاں آ کر رک جاتی تھیں، پھر انہیں سٹیمروں کے ذریعے دریا پار کروانا پڑتا تھا۔ یہاں سے دریا پار کرتے ہی سندھ کا تیسرا بڑا شہر سکھر آجاتا ہے، جس کی اہمیت بار بار بیان کی گئی ہے۔ پاکستان ریلوے کا سب سے طویل پلیٹ فارم بھی روہڑی جنکشن پر واقع ہے جس کی لمبائی آدھ کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔
ڈھرکی کا صنعتی ترقی
ڈھرکی مین لائن پر سندھ کا آخری بڑا اسٹیشن ہے جو بدقسمتی سے محکمہ ریلوے اور مسافروں کے لیے خوف اور دہشت کی علامت بن چکا ہے۔ کیونکہ پاکستان میں ریل گاڑیوں کے چار پانچ بدترین حادثات اسی اسٹیشن پر یا اس کے قریب ہی ہوئے جن میں سیکڑوں لوگ اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ یہ علاقہ اب ایک بڑا صنعتی زون بن چکا ہے جہاں کھاد، پٹرولیم کے بڑے کارخانوں کے علاوہ کئی نجی بجلی گھر بھی قائم کیے گئے ہیں۔ آس پاس کی زمین بھی بہت زرخیز ہے اور یہاں کپاس، گندم، اور گنے کی فصلیں اُگائی جاتی ہیں۔ اس علاقے میں متعدد بڑے صنعتی کارخانے ہونے کی وجہ سے سارے پاکستان سے ملازمت کے لیے آئے ہوئے لوگ یہاں قیام پذیر ہیں، جس کی وجہ سے یہاں اچھے بازار، شاپنگ مال، اور کلب وغیرہ بھی موجود ہیں۔ بہترین نجی تعلیمی ادارے بھی یہاں موجود ہیں۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔