گزشتہ چند سالوں میں پاکستانیوں کی آمدن میں 15 فیصد کمی کا دعویٰ

پاکستان کی حقیقی آمدنی میں کمی
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) ڈان اخبار میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ گزشتہ کچھ سالوں میں پاکستانیوں کی حقیقی آمدنی میں 15 فیصد کمی ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: This Month’s Nepal: Announcement of the Final Squad for the Women’s Soft Championship
معاشی بہتری کے آثار
ڈان کے لیے لکھے گئے امیر پراچہ کے مضمون کے مطابق پاکستان میں حالیہ معاشی اصلاحات کے بعد معیشت میں بہتری کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ مہنگائی میں کمی آئی ہے، روپے کی قدر مستحکم ہوئی ہے، اور بیرون ملک سے ترسیلات میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومت کی مالی نظم و ضبط، شرح سود، توانائی کی قیمتوں، اور آئی ایم ایف پروگرام پر عمل درآمد جیسے فیصلوں نے عالمی شراکت داروں اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چند گھنٹوں میں ایران کے اسرائیل پر دو حملے
طویل مدتی اصلاحات کی ضرورت
تاہم ان کامیابیوں کے باوجود، اب توجہ طویل مدتی اصلاحات پر مرکوز ہونی چاہیے، خاص طور پر ٹیکس کے شعبے میں، جہاں تنخواہ دار طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ پچھلے چند برسوں میں پاکستانیوں کی حقیقی آمدن تقریباً 15 فیصد کم ہوئی ہے۔ مہنگائی، روپے کی قدر میں کمی، غیر متوازن ٹیکس نظام اور محدود تنخواہوں نے عام افراد کے لیے مالی استحکام حاصل کرنا مشکل بنا دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مخصوص نشستوں سے متعلق نظر ثانی کا کیس، پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار، پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے محروم
تنخواہ دار طبقے کا ٹیکس کا بوجھ
تنخواہ دار طبقہ، جو پہلے ہی شفاف طریقے سے ٹیکس دیتا ہے، دیگر طبقات کی نسبت تین گنا زیادہ ٹیکس دیتا ہے، حالانکہ کاروباری طبقہ اور شراکتی ادارے معیشت میں کہیں بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ ناہموار بوجھ افراد کی آمدن کم کرتا ہے، بچت اور سرمایہ کاری کی صلاحیت محدود ہوتی ہے، اور معیشت کی داخلی طلب متاثر ہوتی ہے۔ نتیجتاً، ہنر مند افراد ملک چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کے ساتھ بھی سیاسی سیز فائر ہونا چاہئے: بیرسٹر گوہر
غیر رسمی شعبے اور ٹیکس کی عدم شمولیت
اس کے برعکس، پاکستان کی معیشت کا تقریباً 40 فیصد حصہ غیر رسمی شعبے پر مشتمل ہے جو نہ رجسٹرڈ ہے اور نہ ہی باقاعدہ ٹیکس دیتا ہے۔ اس غیر منصفانہ تقسیم سے ایک طرف ٹیکس چوروں کو کھلی چھوٹ ملتی ہے جبکہ تنخواہ دار طبقے کو معمولی غلطیوں پر سخت سزاؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش: نئے کرنسی نوٹوں سے شیخ مجیب الرحمٰن کی تصویر ہٹا دی گئی
نظام میں بہتری کے لیے تجاویز
یہ عدم توازن نہ صرف انفرادی سطح پر نقصان دہ ہے بلکہ قومی معیشت کے لیے بھی خطرناک ہے۔ اگر صرف رسمی شعبہ ہی ٹیکس دیتا رہے گا اور باقی معیشت بغیر رکاوٹ کے کام کرتی رہے گی، تو ٹیکس دہندگان کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے فوری طور پر قابل ٹیکس آمدن کی حد 12 لاکھ روپے تک بڑھائی جائے اور 10 فیصد سر چارج ختم کیا جائے۔
اصلاحات کے تکنیکی اقدامات
اس کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل نظام، نان فائلرز کی شناخت، اور رعایتوں کے خاتمے جیسے اقدامات بھی ناگزیر ہیں۔ مگر یہ تمام اقدامات ایک جامع اور مستقل اصلاحاتی پالیسی کے تحت کیے جانے چاہئیں تاکہ نظام میں شمولیت کا فائدہ ہو اور محض سزاؤں سے بچنے کا طریقہ نہ بنے۔