وہ لوگ اب اس دنیا میں نہیں رہے مگر جب گاڑی گزرتی ہے تو انکی صدائیں صاف سنائی دیتی ہیں، پلیٹ فارم پر ملگجا سا اندھیرا کچھ خاص نظر بھی نہیں آتا

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 138
صادق آباد
صادق آباد سندھ سے پنجاب میں داخل ہوتے ہی پہلا بڑا اسٹیشن آتا ہے۔ ضلع رحیم یارخان کی تحصیل ہونے کی وجہ سے یہاں تحصیل ہیڈ کوارٹر کے لیے منظور شدہ سرکاری محکمے مثلاً اسپتال، تعلیمی ادارے اور عدالتیں وغیرہ موجود ہیں۔ یہ اس علاقے کا ایک اہم شہر بھی ہے جہاں دور جدید کی عمارتیں اور بازار وغیرہ کے علاوہ کچھ اچھے سرکاری اور نجی اسپتال اور تعلیمی ادارے بھی ہیں۔
رحیم یار خان
رحیم یار خان جنوبی پنجاب کا ایک اہم ضلع ہونے کے علاوہ ایک بڑا اور جدید شہر بھی ہے۔ بہاولپور ڈویژن کا ایک ضلعی ہیڈ کوارٹرز ہونے کی وجہ سے یہاں تمام سرکاری محکمے، اسپتال اور عدالتیں وغیرہ موجود ہیں۔ بے شمار اعلیٰ پائے کے نجی دفاتر، تعلیمی ادارے، اسپتال اور شاپنگ مالز وغیرہ بھی بن گئے ہیں۔ قریب ہی واقع چولستان کے صحراء میں تلور کے شکار کے لیے یہاں عرب حکمرانوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ انھوں نے اپنی ذاتی رہائشگاہوں کی تعمیر کے علاوہ یہاں کئی بڑے بڑے ترقیاتی کام بھی کروائے ہیں جن میں اسپتال، تعلیمی ادارے، مسجدیں اور سڑکوں وغیرہ کی تعمیر بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ یہاں ایک انٹرنیشنل ہوائی اڈہ بھی موجود ہے جہاں ملک بھر سے پروازیں آتی جاتی ہیں۔ شیخ زائد ہسپتال بھی ایک بہت بڑا اور بین الاقوامی معیار کا طبی اور تحقیقاتی مرکز ہے، جس کے ساتھ میڈیکل اور nursing کالج منسلک ہیں۔ ملتان اور بہاولپور کے بعد یہ جنوبی پنجاب کا تیسرا سب سے بڑا اور اہم شہر شمار ہوتا ہے۔
خان پور جنکشن
خانپور ریلوے جنکشن مرکزی لائن پر ایک بہت ہی خوبصورت اور بڑا ریلوے جنکشن ہے۔ یہاں سے ایک مختصر سی ریلوے لائن چاچڑاں شریف کی طرف نکلتی تھی جو بہاولپور کے نوابوں نے اپنے لیے 1911ء میں تعمیر کروائی تھی۔ جس کا سرکاری نام بہاولپور رائل ریلوے تھا۔ بعد ازاں اسے پاکستان ریلوے میں ضم کر دیا گیا تاہم مالی خسارے کی وجہ سے اسے اب مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ لیکن گئے وقتوں کے نشانات اب بھی موجود ہیں۔
ذاتی طور پر یہ اسٹیشن اور شہر مجھے اس لیے بھی بہت اچھا لگتا ہے کہ یہاں میرے ماموں اور ان کے اہل خانہ رہائش پذیر ہیں۔ جب بچپن میں ہم ریل کے ذریعے کراچی جاتے ہوئے یہاں سے گزرتے تھے تو وہ گھر کا بنا ہوا گرم گرم کھانا ہمیں اسٹیشن پر پہنچایا کرتے تھے۔ وہ لوگ تو اب اس دنیا میں نہیں رہے مگر اب بھی جب گاڑی یہاں سے گزرتی ہے تو مجھے ان کے صدائیں صاف سنائی دیتی ہیں۔ ہماری ریل گاڑی یہاں نصف شب کے قریب پہنچتی تھی، پلیٹ فارم پر ملگجا سا اندھیرا ہوتا تھا جس میں کچھ خاص نظر بھی نہیں آتا تھا اور ایسے میں میرے ماموں کھانے کے برتن ہاتھ میں پکڑے اندھیرے میں ہر ڈبے کے سامنے کھڑے ہو کر میرے ابا جان کا نام باآواز بلند پکارتے تھے اور جیسے ہی وہ نظر آتے تو کھانا ان کو پکڑا کر سلام دعا کرتے اور لوٹ جاتے تھے کیونکہ یہاں گاڑی کا قیام بہت ہی مختصر سا ہوتا تھا، اتنا مختصر کہ اس میں تفصیل سے حال احوال بھی نہیں پوچھا جا سکتا تھا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔