اگر پانی نہ رہا۔۔۔

تحریر: رانا بلال یوسف
پانی کی اہمیت
جب پانی رُکتا ہے، تو زندگی سسکنے لگتی ہے، پانی… وہ بےرنگ معجزہ ہے جو زمین کو لہجہ دیتا ہے، بیج کو خواب دیتا ہے، مٹی کو ماں بناتا ہے، پودے کو لمس دیتا ہے اور انسان کی رگوں میں حیات بن کر دوڑتا ہے۔ پانی بہتا ہے تو دریا گاتے ہیں، فصلیں ہنستی ہیں، اور ہوا میں تروتازگی بولتی ہے۔ مگر جب پانی رُک جائے تو ناصرف اس کا ذائقہ تبدیل ہو جاتا ہے بلکہ بو بھی آنے لگتی ہے۔ پانی نہ ملنے سے زمین صرف پیاسی ہی نہیں رہتی، وہ اندر سے ٹوٹنے بھی لگتی ہے۔ ایک ایسا سنّاٹا پھیلتا ہے جو صرف کھیتوں میں نہیں، دلوں میں بھی چھا جاتا ہے۔ اور تب زندگی سسکنے لگتی ہے… بالکل خاموشی کے ساتھ، کیونکہ پانی صرف جسم کو نہیں سیراب کرتا، یہ تہذیبوں کی سانس، تمدنوں کیلئے ریڑھ کی ہڈی اور انسانی شعور کی بقاء بھی ہے۔ جب یہ رکتا ہے، تو صرف کھیت نہیں سوکھتے، وہ تاریخ بھی مدھم پڑ جاتی ہے جو کبھی انہی دریاؤں کے کنارے لکھی گئی تھی۔
بھارتی جارحیت
22 اپریل 2025 کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں فالس آپریشن کے ذریعے دہشت گردی کا ایک منصوبہ تیار کیا، جس میں 26 افراد مارے گئے، جن میں زیادہ تر بھارتی مسلمان سیاح شامل تھے۔ بھارت نے واقعے کی مکمل تحقیق کیے بغیر فوری طور پر اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کردیا۔ صرف 2 ہفتوں بعد 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب ’’آپریشن سندو‘‘ لانچ کرکے پاکستان کیخلاف جارحیت کا عملی مظاہرہ کیا۔ وطن عزیز پاکستان اور آزاد کشمیر میں چار پانچ مقامات پر رات کی تاریکی میں حملے کرکے مساجد اور معصوم شہریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر شہید کردیا جن میں زیادہ تر بچے اور عورتیں شامل تھیں۔ پاکستان کیخلاف بھارتی جارحیت کی امریکہ سمیت دنیا بھر کے دیگر ممالک نے بھی شدید مذمت کی۔ بھارت کا یہ اقدام نہ صرف بین الاقوامی قوانین، اقوامِ متحدہ کے چارٹر، اور دو طرفہ سفارتی روایات کی خلاف ورزی تھا، بلکہ بغیر ثبوت اور شفاف تحقیق کے اٹھایا گیا ایک غیر ذمہ دارانہ اور خطرناک فیصلہ بھی تھا۔ اس کے مقابلے میں پاکستان نے 10 مئی ’’آپریشن بنیان مرصوص‘‘ کے تحت جوابی کارروائی صرف اپنے دفاع اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے کی، تاکہ امن کی بقاء کے ساتھ قومی سلامتی کو بھی یقینی بنایا جا سکے۔
پانی کا مسئلہ
بھارت کی طرف سے پاکستان کے حصے کے پانی پر حملہ، اس جنگ کا اگلا باب تھا۔ بھارت نے یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل کرکے پاکستان کے حصے کا پانی روکنے کا اعلان کردیا۔ 1960 میں عالمی بینک کی ثالثی سے ہونے والا سندھ طاس معاہدہ ایک طویل المدت، متوازن اور قابلِ عمل معاہدہ رہا ہے، جو جنگوں میں بھی قائم رہا۔ اس کے تحت پاکستان کو دریائے سندھ، جہلم اور چناب کے پانی پر مکمل حق حاصل ہے، مگر بھارت نے اس معاہدے پر نظرثانی، بہاؤ کی معطلی اور آبی دباؤ ڈالنے جیسے اقدامات کا اعلان کرکے جنوبی ایشیا میں پانی کو ہتھیار بنانے کی خطرناک روش اپنائی ہے۔
حالات کا سنگین ہونا
رواں ماہ مئی 2025 میں دریائے چناب کے بہاؤ میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ جنوبی پنجاب کے کھیت خشک پڑنے لگے، کسان پریشان ہوئے، اور فطرت کی سانس رکنے لگی۔ تھر کی خواتین آج بھی پانی کے ایک گھونٹ کے لیے میلوں چلتی ہیں۔ بلوچستان کے کئی گوٹھ پانی کی قلت کے باعث خالی ہو چکے ہیں، اور کراچی میں پانی ایک بنیادی سہولت نہیں، کاروبار بن چکا ہے۔ (2023) ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 30 فیصد بیماریاں آلودہ پانی کے باعث پیدا ہوتی ہیں، جبکہ یو این ڈی پی کے مطابق 2025 میں پاکستان کی فی کس پانی دستیابی 500 مکعب میٹر سے کم ہو چکی ہے۔
وزیر اعظم مودی کا نظریہ
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا مسئلہ صرف سیاسی قیادت نہیں، ایک خاص نظریاتی ذہنیت ہے جو آر ایس ایس جیسے انتہا پسند اداروں کی فکری پرورش سے جنم لیتی ہے۔ وہ پانی جیسے فطری رزق کو بھی سیاسی بیانیے کا حصہ بناتے ہیں۔ ان کے لیے دریا جغرافیہ نہیں، ایجنڈا بن چکے ہیں۔ مودی حکومت سمجھتی ہے کہ اگر دشمن کو پیاسا کر دیا جائے تو فتح مکمل ہو جاتی ہے۔ مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ جو قومیں پانی روکتی ہیں، وہ وقت کا بہاؤ روکنے کے قابل کبھی نہیں رہتیں۔
پاکستان کے متعین اقدامات
اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان پانی کے مسئلے پر صرف پریس کانفرنسز، سیمینارز اور بینرز سے آگے بڑھے، اور اس کو میزوں کے گرد گھومنے والے مشوروں سے نکال کر کھیتوں، نہروں، اور شہری نالوں تک لے جائے۔ سب سے پہلے، نہری نظام کی اصلاح، پانی کی چوری کی روک تھام، اور منصفانہ تقسیم جیسے کم لاگت مگر زیادہ فائدے والے اقدامات پر فوری عمل کیا جائے۔ زرعی میدان میں ڈرپ اور اسپرنکلر سسٹمز کو محض نمائشوں میں دکھانے کے بجائے چھوٹے کسانوں کے کھیت تک لایا جائے۔
بین الاقوامی تعاون کی ضرورت
سب سے اہم بات، پاکستان کو چاہیے کہ وہ پانی کے مسئلے کو صرف سفارتی احتجاج تک محدود نہ رکھے، بلکہ بین الاقوامی قانون، ماحولیاتی انصاف اور انسانی حقوق کے تینوں محاذوں پر متحرک ہو۔ عالمی بینک سے باقاعدہ طور پر ثالثی عدالت کے قیام کا مطالبہ کیا جائے تاکہ سندھ طاس معاہدے کی اصل روح کو بحال رکھا جا سکے۔
خلاصہ
میرے نہایت عزیز دوست ذوالفقار مظفر کے والدِ گرامی، مظفر پوار صاحب جو پنجاب کے ایک قدیم، باوقار اور زمیندار روایت کے نمائندہ بزرگ ہیں، ایک دن نہایت دھیمے اور دکھ بھرے لہجے میں مجھ سے کہا: ’’پتر! جدوں پانی رُک جاندا اے تے نہ صرف نہراں سک جاندیاں نیں، دریا وی چپ ہو جاندے نیں… پر اصل گل ایہہ اے وے ساڈے دل دی تڑکن وی رکن لگ جاندی اے۔‘‘ یہ صرف ایک بزرگ کسان کی فریاد نہیں تھی، بلکہ ایک پوری قوم کی وہ دبتی ہوئی چیخ تھی جو اب دریا کے بہاؤ میں نہیں، آنکھوں کے کناروں پر اُتر آئی ہے۔
دعا
قرآن ہمیں یاد دلاتا ہے: (الأنبیاء: 30) — پانی زندگی کی بنیاد ہے، تخلیق کی جڑ، اور بقا کا آخری سہارا۔ اگر پانی نہ رہا… تو نہ ہریالی بچے گی، نہ خوشبو، نہ انسان، نہ انسانیت۔
نوٹ: ادارے کا لکھاری کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں.