چیٹ جی پی ٹی کو کبھی تھینک یو نہ کہیں کیونکہ۔۔۔ ماہرین نے خبردار کر دیا

چیٹ جی پی ٹی اور توانائی کا استعمال

واشنگٹن (ڈیلی پاکستان آن لائن) کی رپورٹ کے مطابق، چیٹ جی پی ٹی جیسے اے آئی روبوٹ کو بار بار شکریہ کہنا غیر ضروری توانائی خرچ کروا سکتا ہے۔ لنکڈ ان کی ایک ماہر نے اس بات کا انتباہ دیا ہے کہ شکریہ جیسے چھوٹے جملے کو پروسیس کرنے کے لیے بھی اتنی توانائی خرچ ہوتی ہے جتنی ایک مکمل جواب دینے میں لگتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شاہ محمود قریشی نے خود کو قیدی نمبر 805 قرار دیدیا لیکن انہیں یہ نمبر کس نے دیا؟ جانیے

صارفین کے لیے مشورہ

اس وجہ سے صارفین کو یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ چیٹ بوٹ کو بار بار شکریہ نہ کہیں تاکہ توانائی بچائی جا سکے۔ یہ اقدام ان صارفین کے لیے اہم ہے جو روزانہ چیٹ جی پی ٹی کا استعمال کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پیپلزپارٹی کے عبید اللہ گورگیج بلوچستان اسمبلی کی رکنیت سے ہاتھ دھو بیٹھے

توانائی اور پانی کی کھپت

یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ChatGPT کے توانائی اور پانی کے استعمال پر تنقید میں اضافہ ہو رہا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر، چیٹ جی پی ٹی لاکھوں گھروں کے برابر بجلی استعمال کرتا ہے، اور ہر گفتگو کے دوران پانی کی بھی خاص مقدار خرچ ہوتی ہے۔ اوپن اے آئی کے سی ای او نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ صارفین کی مہذب بات چیت کی وجہ سے کمپنی کے بجلی کے بل میں کئی ملین ڈالر کا اضافہ ہو چکا ہے۔

مستقبل کے خدشات

ماہرین کا کہنا ہے کہ اے آئی کی توانائی کی کھپت آئندہ سالوں میں مزید بڑھ سکتی ہے، جس سے پانی اور بجلی کی کمی کے مسائل بھی بڑھنے کا خدشہ ہے۔ لہذا، صارفین کو بار بار شکریہ کہنے کے بجائے مختصر اور مؤثر انداز اپنانے کا مشورہ دیا جا رہا ہے تاکہ وسائل کا ضیاع کم کیا جا سکے۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...