رات انتہائی بے چینی میں گزاری، علی الصبح ہی بیدار ہو گیا، مفت لاہور کی سیر کو جا رہے تھے، بریانی اور مرغ پلاؤ کی دیگیں ہر بس میں تھیں اور جوس کے ڈبے بھی۔

مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 180
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی اپنا بیانیہ بھی بھول چکی، کوئی جدوجہد نظر نہیں آ رہی: شیر افضل مروت
لاہور کنونشن کا دن
لاہور کنونشن جانے سے پہلے والی رات انتہائی بے چینی میں گزاری اور علی الصبح ہی بیدار ہو گیا۔ 10 بجے کے قریب ہر بس میں 15 سے 20 لوگ سوار تھے، جن میں کچھ کونسلر جبکہ زیادہ تر اجنبی چہرے تھے۔ یہ لوگ سرکاری اعمال کی خواہش پر مفت لاہور کی سیر کو جا رہے تھے اور سرکاری کھاتے میں یہی کونسلر تھے۔ زاد راہ میں بریانی اور مرغ پلاؤ کی دیگیں ہر بس میں موجود تھیں، ساتھ جوس کے ڈبے اور ڈسپوزایبل پلیٹس بھی۔ (آج بھی یہ پرانا آزمودہ نسخہ قیمے والے نان کے اضافے کے ساتھ پہلے سے بھی زیادہ کارگر ہے۔)
یہ بھی پڑھیں: عدالتی رپورٹنگ پر پیمرا کی پابندی کیخلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ
سفر کی شروعات
غلام محمد اور شفقت میرے ساتھ میری کار میں تھے۔ ہم 11 بجے گجرات چناب کے پل پر پہنچے۔ بسوں کے نمبر چیک ہوئے اور یہ بڑا قافلہ، جس میں پورے گجرات ضلع کی بسیں شامل تھیں، لاہور کے لیے روانہ ہو گیا۔ کس نے کیا چیک کرنا تھا کہ بس میں کون اور کتنے افراد سوار تھے؟ یہ سب اس لئے تھا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ لائے جائیں۔ اجتماع والے دن کس کے پاس اتنا وقت تھا کہ وہ بس روکے، بندے گنے اور پھر جانے دے۔ سرکار لوگ کیسے اکٹھے کرتی تھی، اس کا پہلا سبق مل چکا تھا۔ یہ لوگ تو ہمارے ماتحت تھے، عام آدمی کو سرکاری کھاتے میں لے جانے کے لئے زیادہ پاپڑ بیلنے پڑتے ہوں گے اور کچھ زیادہ لالچ دینا پڑتا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: ڈی آئی خان؛ایس ایچ او کی گاڑی پر فائرنگ، ہیڈکانسٹیبل سمیت 2افراد جاں بحق
لاہور پہنچنے کا وقت
ہم 2 بجے لاہور پہنچے اور فورٹریس سٹیڈیم کے گوجرانوالہ اینکلاسر میں ڈیرہ لگایا۔ لوگوں کو اکٹھا کرنے کے اس پہلے تجربے سے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور ہوتے ہیں اور کھانے کے اور ہوتے ہیں۔ میں بھی ہوشیار ہو گیا تھا اور مجھے بھی ہاتھی کے دانت دیکھنے اور دکھانے آ گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: پاک بھارت جنگ بندی کے باوجود وہ 5 اقدامات جو اب بھی برقرار ہیں
واپسی کا سفر
صاحب صدر نے 3 بجے آنا تھا اور مجھے ان کی تقریر میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اپنے ساتھ آنے والوں کو غلام محمد اور شفقت کے حوالے کیا اور خود اپنے گھر ماڈل ٹاؤن چلا گیا۔ ابا جی کی موٹر گھر چھوڑ کر اگلے روز ریلوے کار سے بتیس (32) روپے کا ٹکٹ خرید کر واپس لالہ موسیٰ پہنچ گیا۔
یہ بھی پڑھیں: کوبرا سانپ کے گوشت کے شوقین، دانتوں کی صفائی نہ کرنے والے، اور عوام کے خوف میں مبتلا آمروں کی دلچسپ کہانیاں
وزٹ کی مشکلات
مشتاق کے آنے بہانے؛ 15 میں 14 یونین کونسلز کے وزٹ کر چکا تھا، صرف یونین کونسل خواص پور کا وزٹ باقی تھا جو کسی نہ کسی وجہ سے 4 بار ملتوی کرنا پڑا تھا۔ اس یونین کونسل کو دو راستوں سے جا یا جا سکتا تھا: ایک راستہ براستہ بھدر تھا جو کافی لمبا تھا جبکہ دوسرا لالہ موسیٰ مین بازار سے گزرتا تھا۔ اس راستے سے خواص پور پہنچنے میں آدھ گھنٹہ لگتا تھا مگر بھمبر نالہ پیدل عبور کرنا پڑتا تھا۔ سیکرٹری یونین کونسل مشتاق حسین میرے دفتر کے بالمقابل محلہ احمد آباد میں رہتا تھا۔ اس کے والد ملک احمد خان، لالہ موسیٰ اکیڈمی سے بطور ہیڈ کلرک ریٹائر ہوئے اور بڑے رکھ رکھاؤ والے انسان تھے۔ اس محلے کا نام بھی انہی کے نام کی نسبت سے ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کرے جو تبصرہ کس میں بتاؤ ہمت ہے۔۔۔
موسمی مشکلات
جب بھی اس کی یونین کونسل جانے کا پروگرام بنتا، وزٹ والے دن مشتاق صبح صبح آتا اور کہتا؛ "بھمبر میں رات پانی آ گیا، ہم خواص پور نہیں جا سکتے۔" بھمبر برساتی نالہ آزاد کشمیر کے شہر بھمبر کی پہاڑیوں سے بہنا شروع ہوتا ہے اور موسم برسات میں اپنے ساتھ بہت پانی لاتا ہے، اس موسم میں خوب طغیانی اور تباہی مچاتا تھا۔ جب نالے میں پانی ہو تو اس وقت اسے پیدل عبور کرنا ناممکن ہو جاتا تھا۔ (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔