اپنے حصے کی بہتری اگر سارے ہی سرکاری ملازمین کی سوچ بن جائے تو میں یقین سے کہتا ہوں معاشرے میں بڑی خوشگوار تبدیلی کا باعث ہو جائے

مصنف کی معلومات
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 181
یہ بھی پڑھیں: اغوا برائے تاوان میں ملوث 5 پولیس اہلکار گرفتار، مغوی بازیاب کرالیا گیا
پلاننگ کا پس منظر
ابھی لالہ موسیٰ شہر اور خواص پور کے درمیان نالے پر پل تعمیر نہیں ہوا تھا۔ یہ منصوبہ عرصے دراز سے زیر غور تو تھا مگر مقامی سیاست کی نظر ہو چکا تھا۔ مشتاق کے کہنے پر میں ہر بار اپنا وزٹ ملتوی کر دیتا تھا۔ آخری بار جب یہ دورہ ملتوی کیا تو مشتاق کو ہفتہ بعد کی تاریخ دی۔
یہ بھی پڑھیں: پولیس نے لاہور میں متعدد وکلاء کو حراست میں لیا
اگلی تاریخ کا سفر
وہ چلا گیا تو میں نے غلام محمد سے کہا؛ "خواہ کچھ بھی ہو اگلی تاریخ پر ہر صورت دورہ کرنا ہے۔" نئی تاریخ پر مشتاق اپنی پرانی کہانی سمیت صبح صبح ہی آ گیا۔ غلام محمد بولا؛ "ملک! صاحب نے آج جانا ہی ہے۔ 10 بجے چلیں گے۔" وہ زور دے کے کہتا رہا، "پانی ہے نہیں جا سکیں گے۔" میں ان کی گفتگو سن چکا تھا اور کہا؛ "مشتاق آپ تیاری کریں۔ آج ہم ضرور جائیں گے۔"
یہ بھی پڑھیں: مسلح افواج نے جس طرح مادر وطن کا دفاع کیا وہ قابل فخر ہے: سی ای او لیسکو
بھمبر نالے کا تجربہ
مشتاق کے پاس جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ میں غلام محمد کے ساتھ موٹر سائیکل پر سوار ہوا، مشتاق اپنی بائیک پر تھا۔ ہم دس پندرہ منٹ میں بھمبر نالے کے کنارے پہنچ گئے۔ نالے میں گھٹنوں گھٹنوں تک پانی تھا۔ گرمیوں کے دن تھے اور مقامی لوگ شلوار کے پائینچے گھٹنوں تک اٹھائے نالے کے آر پار جارہے تھے۔ خواتین کا یوں گھٹنوں سے اوپر تک شلواریں اٹھائے پانی سے گزرنا خود آنکھوں کے لئے راحت کا باعث تھا۔
یہ بھی پڑھیں: راولپنڈی میں زہریلا دودھ پینے سے 3 بچے جاں بحق، ماں کے خلاف مقدمہ درج
پانی میں اترنے کا فیصلہ
سانولی گوری پنڈلیوں سے ٹکراتا پانی، وقت ہوتا تو میں دیر تک اس بے نیازی سے لطف و سکون لیتا۔ ویسے بے نیازی کی تھی بھی انتہا۔ میں نے بھی اپنی پینٹ اتاری، نیچے نیکر پہنی تھی اور نالے میں اتر گیا۔ مشتاق یہ دیکھ کر ہکا بکا ہوا۔ شلواریں مشتاق اور غلام محمد نے بھی "ٹنگ" لی تھیں۔ بھمبر کے پانی میں اترا تو جسم میں کپکپی سی دوڑی لیکن یہ کپکپی بھمبر کے نظاروں کے سامنے کچھ بھی نہ تھی۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی وزیر امیر مقام کے قافلے کی گاڑی حادثے کا شکار
خواص پور کا دفتر
میں ان نظاروں میں کھویا بھمبر کے دوسرے کنارے جا لگا جہاں سو میٹر دور خواص پور یونین کونسل کا خستہ حال دفتر چھوٹے قد کے نائب قاصد محمد نذیر کے ساتھ ہمارا منتظر تھا۔ سال پہلے آئے سیلاب کا پانی یہاں تک آن پہنچا تھا جس نے یونین کونسل کے دفتر کی عمارت کو بہت نقصان پہنچایا تھا۔ خستہ حال عمارت میں پیپل کے بڑے درخت کی بڑی چھاؤں میں چند کرسیاں اور ایک میز رکھی تھی۔ یہیں ہمیں یونین کونسل کے ریکارڈ کی پڑتال کرنی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ہیلتھ سسٹم میں بنیادی اصلاحات کاجامع پلان طلب، سرکاری ہسپتالوں سے ادویات چوری کے ذمہ داروں کو عبرت کا نشان بنائیں گے: مریم نواز
ریکارڈ کی پڑتال
جیسے جیسے ریکارڈ کی پڑتال کرتا جا رہا تھا، سمجھ آرہی تھی کہ مشتاق کا دورے نہ کروانے کے بہانے بھمبر کا پانی نہیں بلکہ نامکمل ریکارڈ تھا۔ پچھلے سال ڈیڑھ سے کیش بک ہی نہیں لکھی گئی تھی۔ کیش بک کا اتنے عرصہ تک نامکمل رہنا سنگین غلطی تھی۔ باقی ریکارڈ بھی نا مکمل تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ایک بار پھر کراچی میں پاک ویلز کار میلہ
سرکاری نوکری پر خیالات
میں نے پہلے بھی کہیں ذکر کیا تھا کہ میرا معائنہ کرنے کا مقصد اصلاح کا پہلو ہو، نہ کہ کسی کو بلیک میل کرنے یا پیسے بٹورنے کا۔ ہاں جہاں کہیں مناسب سمجھا، سزا بھی دی۔ ہمارے کچھ سینئر افسران کا وطیرہ تھا کہ وہ معائنہ کے نام پر پروگرام جاری کرتے اور پھر متعلقہ عملے سے کچھ رقم وصول کرکے سب اچھا کا سرٹیفیکٹ جاری کر دیتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: India: Hindu Extremists Run Over Muslim Family, 3 Dead
سرکاری خدمات کا فلسفہ
سرکاری نوکری کے بارے میں میرا شروع دن سے یہ یقین رہا ہے کہ افسر دل سے اللہ کی مخلوق کی خدمت اور اپنی حدود و اختیار میں رہ کر نظام میں بہتری کی کوشش کریں تو سرکار کی ملازمت سے بہتر کوئی اللہ کے بندوں کی خدمت کا دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔ اپنے حصے کی بہتری اگر سارے ہی سرکاری ملازمین کی سوچ بن جائے تو میں یقین سے کہتا ہوں کہ معاشرے میں بڑی خوشگوار تبدیلی کا باعث ہو۔ (جاری ہے)
کتاب کی معلومات
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔