لوگ والدین سے تعلق کیوں ختم کرتے ہیں؟

والدین اور بچوں کے تعلقات میں دوری
لندن (ڈیلی پاکستان آن لائن) والدین اور بچوں کے درمیان تعلقات میں دوری یا مکمل طور پر تعلق ختم کرنا حیرت انگیز طور پر عام ہے۔ حالانکہ اس رجحان کے بڑھنے کے حتمی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، لیکن جو تحقیق موجود ہے وہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: الکا یاگنک اور ان کی بیٹی نے ساڑھے 11 کروڑ روپے میں فلیٹ خرید لیا، لیکن اس پر سٹامپ ڈیوٹی کتنی دی گئی؟
امریکہ اور جرمنی میں تعلقات کی درستی
ایک سروے کے مطابق، امریکہ میں 26 فیصد افراد نے اپنے باپ سے اور چھ فیصد نے اپنی ماں سے کسی نہ کسی مدت کے لیے تعلقات میں دوری کا تجربہ کیا۔ جرمنی میں بھی اسی طرح کے اعداد و شمار سامنے آئے ہیں، جہاں نو فیصد افراد نے اپنی ماؤں سے اور 20 فیصد نے اپنے باپوں سے دوری اختیار کی۔ ایک اور تحقیق میں یہ پایا گیا کہ 10 فیصد لوگ اپنے والدین یا بچوں سے مکمل طور پر رابطے میں نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ابتک 25 اسرائیلی ساخت کے ہیروپ ڈرونز کو مار گرایا گیا،آئی ایس پی آر
روایتی خاندانی اقدار میں تبدیلی
بی بی سی کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ "خون کا رشتہ پانی سے زیادہ گہرا ہوتا ہے" جیسے روایتی خاندانی اقدار کمزور پڑ رہی ہیں۔ بڑھتی ہوئی انفرادیت بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے جہاں لوگ اپنی خوشی اور شناخت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا کا بھی اس میں کردار ہے جہاں لوگ ہم خیال افراد کا اپنا قبیلہ تلاش کر سکتے ہیں اور کئی اثر و رسوخ رکھنے والے افراد "زہریلے" رشتوں کو ختم کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد یونائیٹڈ کو 2 غیرملکی کھلاڑیوں کی صورت میں بڑا دھچکا
دوری کی وجوہات
والدین سے تعلقات میں دوری کی عام وجوہات میں جذباتی زیادتی، سخت یا آمرانہ پرورش، اور خاندانی تنازعات شامل ہیں۔ طلاق کے بعد والدین میں سے کسی ایک کا ساتھ دینا یا نئے پارٹنر کو ناپسند کرنا بھی وجہ بن سکتا ہے۔ سیاسی اختلافات بھی بعض اوقات اس دوری کا سبب بن سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: تھرپارکر : گرمی کی شدت سے مزید 12 مور ہلاک
ماہرین کی رائے
ماہر نفسیات لوسی بلیک کا کہنا ہے کہ کوئی بھی ایسے رشتے میں رہنے کا پابند نہیں جہاں وہ خود کو محفوظ محسوس نہ کرے۔ وہ جذباتی زیادتی کی اہمیت پر زور دیتی ہیں، حالانکہ کچھ ماہرین اسے ایک پیچیدہ اصطلاح قرار دیتے ہیں جو بعض اوقات غلط استعمال بھی ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ذہنی بیماریاں یا نشے کے مسائل بھی بچوں کی یادداشتوں کو مسخ کر سکتے ہیں، جس سے وہ اپنے والدین کو غلط طریقے سے دیکھ سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کرسٹیانو رونالڈو کو سعودی کلب چھوڑنے کی پیشکش آگئی
دوری کے فیصلے کا اثر
محقق کارل پِلمر کی تحقیق میں یہ سامنے آیا کہ بہت سے لوگ شروع میں دوری کے فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں، لیکن بعد میں غمگین اور غیر مطمئن محسوس کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ اپنے فیصلے پر پچھتاوے کے خوف کا بھی شکار ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب: ن لیگ، پی پی پاور شیئرنگ کمیٹیوں کے اجلاس کل طلب
تعلقات کی بحالی کی امید
ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ اگر والدین کے ساتھ رہنا ناقابل برداشت ہو جائے تو شروع میں محدود مدت کے لیے دوری اختیار کی جائے۔ یہ ممکن ہے کہ کچھ وقت کے بعد والدین کو اپنی غلطیوں کا احساس ہو جائے اور تعلقات کی بحالی کی کوشش کی جائے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ تعلقات کی بحالی ممکن ہے۔ امریکہ میں 62 فیصد افراد جو اپنی ماؤں سے اور 44 فیصد جو اپنے باپوں سے الگ ہو گئے تھے، ایک مدت کے لیے دوبارہ رابطے میں آئے۔
یادداشتوں کی غیر درستگی
یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یادداشتیں اکثر غیر درست ہو سکتی ہیں اور ہم چیزوں کو مختلف طریقوں سے یاد کر سکتے ہیں۔ والدین بھی انسان ہیں اور غلطیاں کرتے ہیں، اور ہمیں بھی اپنی غلطیاں کرنے کا امکان ہے۔ ایک دوسرے کے لیے ہمدردی، خود احتسابی اور سننے کی آمادگی تعلقات کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے.