ایلون مسک نے ٹرمپ انتظامیہ کو خیرباد کہہ دیا
ایلون مسک نے ٹرمپ انتظامیہ کو خیر باد کہا
نیویارک (ویب ڈیسک) الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی امریکی کمپنی ٹیسلا، سوشل میڈیا سائٹ ایکس جیسی کمپنیوں کے مالک اور امریکا کے محکمہ برائے حکومتی کارکردگی (DOGE) کے سربراہ ایلون مسک نے ٹرمپ انتظامیہ کو خیر باد کہہ دیا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت نے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑائیں ، اب بات برابری کی بنیاد پر ہو گی: حافظ نعیم الرحمان
مشیر کا عہدہ چھوڑنے کی تصدیق
جیو نیوز کے مطابق دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک نے صدر ٹرمپ کو بتائے بغیر مشیر کا اہم عہدہ چھوڑ دیا ہے۔ وائٹ ہاؤس اہلکاروں نے بھی اس بات کی تصدیق کر دی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (بدھ) کا دن کیسا رہے گا؟
حکومتی ملازمت کی مدت
ٹیسلا کے چیف ایگزیکٹو ایلون مسک نے طے کیا تھا کہ وہ حکومت کے خصوصی ملازم کے طورپر 130 روز کام کریں گے۔ یہ مدت 30 مئی کو مکمل ہونا تھی تاہم ٹرمپ انتظامیہ سے مایوسی کا شکار مسک نے 2 روز پہلے ہی وائٹ ہاؤس کو خیرباد کہہ دیا۔ اس طرح ٹرمپ انتظامیہ کی پہلی بڑی وکٹ گر گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بلاول بھٹو زرداری کا بھارتی صحافی کرن تھاپر کے ساتھ انٹرویو آج نشر ہوگا
بلی پر عدم اطمینان کا اظہار
ایلون مسک نے ایک ہی روز پہلے صدر ٹرمپ کے بڑے خوبصورت بل پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ بل یا تو بڑا ہوسکتا ہے یا خوبصورت مگر وہ نہیں جانتے کہ ایسا بل دونوں خصوصیات کا حامل ہوسکتا ہے۔ ایلون مسک نے واضح کیا تھا کہ بل میں شامل بعض امور سے وہ خوش نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: یہ غیرت نہیں، کھلا قتل اور بے غیرتی کی انتہا ہے، بلوچستان واقعے پر تحریک انصاف کا رد عمل
ٹائم ختم ہونے کا اعلان
ایلون مسک نے ایکس پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ 'حکومت کے خصوصی ملازم کی حیثیت سے ان کا ٹائم ختم ہوگیا ہے۔ وہ صدر ٹرمپ کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے موقع دیا کہ بے کار اخراجات کم کروں۔ ساتھ ہی کہا کہ حکومتی استعداد کار بڑھانے کا مشن وقت گزرنے کے ساتھ مزید مضبوط ہوگا'۔
As my scheduled time as a Special Government Employee comes to an end, I would like to thank President @realDonaldTrump for the opportunity to reduce wasteful spending.
The @DOGE mission will only strengthen over time as it becomes a way of life throughout the government.
— Elon Musk (@elonmusk) May 29, 2025
یہ بھی پڑھیں: ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعرات) کا دن کیسا رہے گا ؟
قانون سازی اور احتجاج
ٹرمپ انتظامیہ قانون سازی کر رہی ہے جس میں ٹیکس کٹوتیاں اور امیگریشن سے متعلق قوانین کو سخت بنایا جانا شامل ہے۔ تاہم ایلون مسک نے کہا تھا کہ یہ بل بہت زیادہ اخراجات سے متعلق ہے جس سے وفاقی خسارہ بڑھے۔ اس لیے یہ بل ان کے محکمے DOGE کے اقدامات کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے۔
یہ بھی پڑھیں: طلاق کی شرح میں غیرمعمولی اضافے سے متعلق نئی رپورٹ جاری
سرگرمیوں کا دفاع
میڈیا رپورٹس کے مطابق صدر ٹرمپ اور ڈوج 23 لاکھ وفاقی ملازمین میں سے 2 لاکھ 60 ہزار یعنی 12 فیصد کم کرچکا ہے۔ ایلون مسک کے سیاسی سرگرمیوں میں شامل ہونے کے سبب ان کے خلاف بعض انویسٹرز نے احتجاج بھی کیا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنی توجہ ٹیسلا کے امور پر دیں۔
یہ بھی پڑھیں: اگر میں صدر ہوتا تو اسرائیل پر حملے نہیں ہوتے، ٹرمپ
وفاقی بیوروکریسی کی حالت
حکومتی استعداد کار سے متعلق محکمہ کا چارج سنبھالنے کے بعد ایلون مسک نے تسلیم کیا تھا کہ وفاقی بیوروکریسی کی حالت اس سے کہیں زیادہ خراب ہے جتنا انہوں نے تصور کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: مشال یوسفزئی پر 43 کروڑ کا الزام چند ’’قربِ گوش دانشوروں‘‘کی چالاکی بے نقاب کرنے پر لگایاگیا،شیر افضل مروت
صدر ٹرمپ کے ساتھ تعلقات
واضح رہے کہ ارب پتی ایلون مسک صدر ٹرمپ کے سینیئر مشیر کی حیثیت سے تنخواہ نہیں لیتے تھے۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا تھا کہ مسک ڈوج کے امور کی نگرانی کرتے تھے مگر اس کے ملازم نہیں تھے۔
یہ بھی پڑھیں: آئی سی سی ٹیسٹ پلیئرز رینکنگ، بابر اعظم کی 4 درجے تنزلی، کونسے نمبر پر چلے گئے
غیر روایتی انداز
ایلون مسک امریکی صدر کے ان چہیتے افراد میں بھی شامل تھے جنہیں غیر معمولی اختیارات دیے گئے تھے۔ دیگر وزرا اور عہدیداروں کے مقابلے میں ایلون مسک کا انداز ہمیشہ غیر روایتی رہا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم شہباز شریف ترکیہ کا دورہ مکمل کرکے تہران پہنچ گئے
خصوصی تاریخی میز کے ساتھ واقعہ
ایلون مسک اہم موقعوں پر بھی اپنے کمسن بیٹے کے ساتھ امریکی صدر کے اوول آفس آتے تھے، اور ایک بار بچے نے اپنی ناک میں انگلی گھما کر ناک 145 سال پرانی میز سے پونچھ دی تھی جس پر صدر ٹرمپ نے یہ تاریخی میز فوری طور پر تبدیل کرادی تھی۔
تاریخی میز کی اہمیت
ریزولیٹ ڈیسک شاہ بلوط کی لکڑی سے بنا ہوا ہے جو برطانیہ کے بحری جہاز ایچ ایم ایس ریزولیٹ سے حاصل کی گئی تھی۔ یہ برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ نے 1880 میں خیرسگالی اور دوستانہ تعلقات کے جذبے سے صدر رڈرفورڈ کو تحفے میں دی تھی۔
اس میز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ لنڈن بی جانسن، رچرڈ نکسن اور جیرالڈ فورڈ کے علاوہ باقی تمام صدور نے اسی میز کو استعمال کیا۔ اسے صدر جان ایف کینیڈی کی ہدایت پر 1961 میں اوول آفس منتقل کردیا گیاتھا۔








