ماضی میں کسی جج کی ہائیکورٹ میں مستقل ٹرانسفر کی کوئی مثال نہیں، صرف عبوری ٹرانسفر ہو سکتی ہے، وکیل صلاح الدین

سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر کیس کی سماعت
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) سپریم کورٹ آئینی بنچ میں اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر کیس میں ججز کے وکیل صلاح الدین نے جواب الجواب دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں کسی جج کی ہائیکورٹ میں مستقل ٹرانسفر کی کوئی مثال نہیں، آرٹیکل 200 کے تحت جج کی صرف عبوری ٹرانسفر ہو سکتی ہے، مستقل تقرری صرف جوڈیشل کمیشن ہی کر سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بی بی سی کی 100 خواتین: ‘سیکس کی علامت’ کہلائی جانے والی اداکارہ جنہوں نے اپنی شہرت کو ایڈز کے خلاف استعمال کیا
ججز کے وکیل کے دلائل
نجی ٹی وی سما نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے سماعت کی۔ ہائیکورٹ کے 5 ججز کے وکیل صلاح الدین نے جواب الجواب دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جج کے تبادلے سے اس ہائیکورٹ کی سیٹ خالی نہیں ہو سکتی، جج کے مستقل ٹرانسفر سے آرٹیکل 175 اے غیر مؤثر ہو جائے گا، ماضی میں کسی جج کی ہائیکورٹ میں مستقل ٹرانسفر کی کوئی مثال نہیں، آرٹیکل 200 کے تحت جج کی صرف عبوری ٹرانسفر ہو سکتی ہے، مستقل تقرری صرف جوڈیشل کمیشن ہی کر سکتا ہے۔
عدالت میں ہونے والی بحث
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرٹیکل 175 اے کے تحت نئی تقرری ہو سکتی ہے، جبکہ نئی تقرری اور تبادلے کے معنی الگ الگ ہیں۔ صلاح الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ جج ٹرانسfer کے لئے بامعنی مشاورت ہونی چاہئے، بامعنی مشاورت کے بغیر تبادلے کا سارا عمل محض دکھاوا ہے، یہاں معلومات کو چھپایا گیا اور غلط معلومات دی گئیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ عدالت کے سامنے آئینی و قانونی نکتے کی تشریح کا معاملہ ہے، تبادلے کے معاملے میں 3 چیف جسٹسز شامل تھے، ہر چیز ایگزیکٹو کے ہاتھ میں نہیں تھی، تبادلے پر جج سے رضامندی بھی لی جاتی ہے۔