بھارتیوں نے فائٹر جیٹ انجن ’کاویری‘ کیلئے چندہ مہم شروع کردی

بھارت کا دفاعی منصوبہ اور سوشل میڈیا مہم
نئی دہلی (ویب ڈیسک) دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویدار بھارت، جسے خود کو خطے کی سپر پاور کے طور پر پیش کرنے کا جنون لاحق ہے، آج کل سوشل میڈیا پر اپنے نام نہاد ”کاویری جیٹ انجن“ کے لیے عوام سے چندہ مانگنے پر مجبور ہے۔ ہیش ٹیگ #FundKaveriEngine کے تحت بھارتی شہری، دفاعی ماہرین اور ”ایوی ایشن ان تھوزیاسٹس“ وزیر اعظم نریندر مودی سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ اس منصوبے پر فوری توجہ دیں — گویا یہ قومی سلامتی کا مسئلہ نہیں بلکہ کسی مقامی پنچایت کی اسکیم ہو۔
یہ بھی پڑھیں: انسداد دہشتگردی اور ہارڈنڈ دی اسٹیٹ کمیٹی کا اجلاس، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جدید اسلحہ اور ٹیکنالوجی سے لیس کر رہے ہیں: وزیر قانون ملک صہیب احمد بھرتھ
سوشل میڈیا پر چندہ مہم
آج نیوز کے مطابق بھارتیوں کی اس فکری خودکفالت پر مبنی حب الوطنی کی حالت یہ ہے کہ وہ دنیا کے سب سے اہم اور پیچیدہ دفاعی منصوبے یعنی جیٹ انجن بنانے جیسے حساس کام کے لیے سوشل میڈیا پر چندہ مہم چلا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: لندن میراتھن میں 40 پاکستانیوں کی شرکت، کینیا کے سیباسشین ساوے فاتح قرار پائے
کاویری انجن کی تاریخ
کاویِری انجن، جو 1980 کی دہائی میں شروع کیا گیا تھا، آج چالیس سال بعد بھی کامیابی کی منزل کو ترس رہا ہے۔ اور اب، جب یہ انجن ”تیجس“ طیارے سے نکالا جا چکا ہے، بھارت نے اسے یو سی اے وی (ڈرون) اور بحری جنگی جہازوں پر استعمال کرنے کا خواب دیکھا ہے — لیکن خواب دیکھنے اور حقیقت بنانے میں وہی فرق ہے جو کاویِری اور امریکی GE-F414 انجن میں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر خارجہ اسحاق ڈار 2 روزہ سرکاری دورے پر ایران چلے گئے
ناکامی کی وجوہات
1980 سے 2024 تک تقریباً 3000 کروڑ بھارتی روپے جھونکنے کے باوجود بھارت نہ تو اس انجن کو ہوا میں کامیابی سے اڑا سکا، نہ زمین پر اعتماد جیت سکا۔ تکنیکی نااہلی، مواد کی کمی، تجربہ گاہوں کی قلت، اور فرانسیسی ”Snecma“ کے ساتھ معاہدے کی ناکامی جیسے حقائق نے کاویری انجن کو ناکامی کی علامت بنا دیا۔ ایک وقت تھا جب یہ انجن بھارت کے لڑاکا طیارے تیجس کے لیے بنایا جا رہا تھا، لیکن اب یہ صرف ٹوئیٹر کے ہیش ٹیگز کا مرکز بن چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا عمران خان کو رہائی ملنی چاہئے؟مضمون نگار کا تبصرہ
عوام کا نظریہ
بھارت کے دفاعی ماہرین جنہیں ’واٹس ایپ یونیورسٹی‘ کے فارغ التحصیل کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، سمجھتے ہیں کہ اگر قوم متحد ہو جائے تو جیٹ انجن خود بخود بن جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جیٹ انجن کوئی مسلم مخالف مہم نہیں جسے صرف انتہا پسندی کے ایندھن سے چلایا جا سکے۔ اس کے لیے اعلیٰ درجے کی میٹریالوجی، ایرو ڈائنامکس، اور ٹربائن ٹیکنالوجی کی ضرورت ہوتی ہے — جو بھارت آج بھی فرانس، امریکہ اور روس سے بھیک مانگ کر سیکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایکواٹوریل گنی کے سیکس ٹیپ سکینڈل نے صدر، وزرا اور فوجی افسران کی بیویاں بھی متاثر کیں
پاکستان کا دفاعی منصوبہ
ادھر پاکستان میں مقامی طور پر تیار کردہ ”فتح راکٹ سسٹم“ اور ”شاہپر“ جیسے جدید یو اے ویز پہلے ہی میدان میں ہیں۔ بھارت کے مقابلے میں کم وسائل کے باوجود، پاکستان نے ہتھیار سازی میں وہ کامیابیاں حاصل کی ہیں جو صرف بجٹ نہیں، وژن سے آتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 0
نتیجہ
کاویری انجن کا موجودہ حال بھارت کے اس زعم کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ محض دعوے، تقاریر اور سوشل میڈیا ٹرینڈز سے عالمی طاقت نہیں بنا جاتا۔ اگر کوئی ملک خود کو دفاعی لحاظ سے خودکفیل کہنا چاہتا ہے، تو اسے چندہ نہیں، تحقیق، مہارت اور مسلسل محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بھارت کے عوام شاید یہ بھول چکے ہیں — یا انہیں مودی سرکار نے بھلا دیا ہے — کہ سائنس جذبات سے نہیں، عقل سے آگے بڑھتی ہے۔
مستقبل کا چیلنج
اور جب تک بھارت اپنا کاویِری انجن چندے سے بنانے کی کوشش کرتا رہے گا، اس کی ہوا بازی کی خودمختاری ہمیشہ غیر ملکی انجنز کی محتاج رہے گی — چاہے وہ فرانس ہو یا امریکہ۔