کیا جج آئینی سکوپ سے باہر جا کر فیصلہ دے سکتے ہیں؟ عوامی امنگوں اور جمہوریت کیلئے صحیح، لیکن کیا جج آئین ری رائٹ کر سکتے ہیں؟ جسٹس محمد علی مظہر کا استفسار
سپریم کورٹ کا نظرثانی کیس
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) سپریم کورٹ آئینی بنچ میں مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس کی سماعت جاری ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے اس موقع پر سوال اٹھایا کہ کیا جج آئینی سکوپ سے باہر جا کر فیصلہ دے سکتے ہیں؟ یہ عوامی امنگوں اور جمہوریت کے لئے جائز ہے، لیکن کیا جج آئین کی از سر نو تحریر کر سکتے ہیں؟
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد؛ گاڑی سمیت باپ بیٹی کے پانی میں بہہ جانے کے معاملے میں اہم پیش رفت
وکیل فیصل صدیقی کی وضاحت
وکیل فیصل صدیقی نے واضح کیا کہ کوئی آئین "ری رائٹ" نہیں کیا گیا۔ اس کے جواب میں جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ دراصل ری رائٹ کیا گیا ہے، جیسا کہ 3 دن کی مدت کو بڑھا کر 15 دن کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: تیتر، بٹیر اور طوطوں کا غیرقانونی شکار کرنے والے 7 شکاریوں کو ساڑھے 3 لاکھ روپے جرمانہ، 24 ملزمان کا چالان
11 رکنی لارجر بنچ کی سماعت
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق، سپریم کورٹ آئینی بنچ کی تشکیل کردہ 11 رکنی لارجر بنچ کی سربراہی جسٹس امین الدین خان کر رہے ہیں۔ سماعت کے دوران سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ 11 ججز نے آزاد امیدواروں کو پی ٹی آئی کا تسلیم کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: یوٹیوبر سعید الرحمان المعروف ڈکی بھائی کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 4 روز کی توسیع
ججز کی رائے
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 39 امیدواروں کی حد تک وہ اور قاضی فائز عیسیٰ بھی 8 ججز سے متفق تھے۔ اسی طرح، جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی پی ٹی آئی کو سیاسی جماعت تسلیم کیا۔ جسٹس آفریدی نے کہا کہ پی ٹی آئی نشستوں کی حقدار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کرم میں جھڑپیں، مزید 5 افراد جاں بحق، 8 روز میں اموات کی تعداد 107 ہوگئی
اقلیتی ججز کا فیصلہ
جسٹس محمد علی مظہر نے یہ بتایا کہ اقلیتی ججز نے انہی بنیادوں پر پی ٹی آئی کو تسلیم کیا جو اکثریتی ججز نے کیا۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ اب نظرثانی درخواستوں میں ان اقلیتی فیصلوں پر انحصار کیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ۱۹۹۰ء کی دہائی کے آغاز میں پاکستان مسلم لیگ ۳ دھڑوں میں تقسیم ہوتی نظر آتی تھی، حامد ناصر چٹھہ خود کو نواز شریف سے زیادہ بڑا لیڈر سمجھتے تھے۔
عدالت کے سوالات
دوسری جانب درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کو ریلیف نہیں مل سکتا تھا، تو نظرثانی ان فیصلوں پر کیسے لائی جا سکتی ہے؟ عدالت نے یہ پوچھا کہ جس فیصلے کو چیلنج کیا جا رہا ہے، وہ تو ہمارے سامنے پڑھا ہی نہیں گیا۔
نتیجہ
جسٹس محمد علی مظہر نے پھر سوال کیا کہ کیا جج آئینی سکوپ سے باہر جا کر فیصلہ دے سکتے ہیں؟ جبکہ وکیل فیصل صدیقی نے ایک بار پھر کہا کہ کوئی آئین "ری رائٹ" نہیں کیا گیا، جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے جواب دیا کہ واقعی یہ ری رائٹ کیا گیا ہے۔








