بنگلہ دیشی فوج نے استعفیٰ مانگا تو شیخ حسینہ واجد نے کیا جواب دیا؟ چیف پراسیکیوٹر محمد تاج الاسلام نے تفصیلات شیئر کردیں۔
 
			شیخ حسینہ واجد کی وزارت عظمی کا خاتمہ
ڈھاکہ (ویب ڈیسک) بنگلہ دیش کی سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد کے اقتدار سے علیحدگی کے آخری لمحات انتہائی ڈرامائی اور جذباتی تھے۔ ان کی حکومت کے خاتمے کے پس منظر میں جو حالات سامنے آئے ہیں، وہ نہ صرف بنگلہ دیش کی حالیہ تاریخ کا دھچکا خیز باب ہیں بلکہ خطے میں سیاست، عوامی ردعمل اور طاقت کے توازن پر بھی سنگین سوالات اٹھاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی رہنما شرمندہ یا خوفزدہ؟عمران خان سے ملاقات کیلئے بھی کوئی نہ آیا
چیف پراسیکیوٹر کا بیان
آج نیوز کے مطابق اس سلسلے میں تفصیلات چیف پراسیکیوٹر محمد تاج الاسلام نے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل میں ایک حالیہ سماعت کے دوران بیان کیں۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح 5 اگست 2024 کی صبح شیخ حسینہ نے استعفیٰ دینے سے انکار کرتے ہوئے غصے میں کہا، ’پھر مجھے گولی مار دو اور مجھے یہیں گن بھون میں دفنا دو۔‘
یہ بھی پڑھیں: 1965ء کی جنگ کے ہیرو میجر عزیز بھٹی کا آج 60 واں یوم شہادت منایا جا رہا ہے
عوامی احتجاجات کی شدت
یہ تمام واقعہ ان شدید عوامی احتجاجات کے تناظر میں پیش آیا، جو سرکاری ملازمتوں میں متنازعہ کوٹہ سسٹم کے خلاف جاری تھے۔ دو ماہ سے بڑھتے ہوئے مظاہروں کے دوران 500 سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے تھے۔ صورتحال اس قدر خراب ہو چکی تھی کہ سیکیورٹی فورسز نے خود تسلیم کیا کہ ان کے پاس نہ تو مزید گولہ بارود بچا تھا اور نہ ہی طاقت باقی رہ گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: فساد تھوڑی دیر کنٹرول ہو جائے تو پاکستان مزید ترقی کریگا: عظمیٰ بخاری
پُر تناؤ اجلاس
چیف پراسیکیوٹر کے مطابق 4 اگست 2024 کی رات وزیراعظم ہاؤس (گنا بھابن) میں ایک نہایت پُر تناؤ اور جذباتی اجلاس ہوا، جس میں سینئر وزراء، فوج، فضائیہ، بحریہ اور پولیس کے سربراہان شریک ہوئے۔ سب سے پہلے اُس وقت کی اسپیکر ڈاکٹر شیرین شرمین چوہدری نے شیخ حسینہ کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیا۔ تاہم، حکمران جماعت عوامی لیگ کے کئی سینئر رہنماؤں نے اس مشورے کو مسترد کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: سرگودھا میں بھائی نے غیرت کے نام پر بہن کو قتل کردیا
فوجی تجویز و ردعمل
اجلاس میں اُس وقت کے دفاعی مشیر میجر جنرل (ر) طارق احمد صدیقی نے سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے فوج کو مظاہرین پر گولی چلانے کی تجویز دی، یہاں تک کہ مظاہرین پر ہیلی کاپٹروں سے فائرنگ کا بھی ذکر کیا گیا۔ اس پر بنگلہ دیش ایئر فورس کے سربراہ نے شدید ردعمل دیا اور کہا، ’یہ (طارق) آپ کو پہلے بھی لے ڈوبا تھا، اور اب بھی لے ڈوبے گا۔‘
یہ بھی پڑھیں: 5 اکتوبر احتجاج کیس: حماد اظہر سمیت 2 پی ٹی آئی رہنما اشتہاری قرار
استعفی کی طلب
اگلی صبح، جیسے ہی مظاہرین گنا بھابن کے قریب پہنچنے لگے، فوج اور پولیس نے حسینہ سے ایک بار پھر استعفیٰ کی اپیل کی۔ اس موقع پر وزیراعظم نے جذبات سے مغلوب ہو کر کہا، ’پھر مجھے گولی مار دو اور مجھے یہیں دفنا دو۔‘
یہ بھی پڑھیں: عشق میں ناکامی پر مردوں میں موت کا امکان زیادہ ہوتا ہے یا پھر صنف نازک میں؟ طبی ماہرین نے معمہ حل کردیا
خطرناک صورتحال
صورتحال انتہائی سنگین ہو چکی تھی۔ پولیس فورس نے اعتراف کیا کہ وہ مکمل طور پر تھک چکی ہے، ان کے پاس نہ ہتھیار ہیں اور نہ ہی مزید مقابلہ کرنے کی سکت۔ اس نازک موقع پر شیخ حسینہ کی بہن، شیخ ریحانہ نے انہیں استعفیٰ دینے پر آمادہ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ یہاں تک کہ وہ حسینہ کے قدموں میں گر گئیں، لیکن حسینہ نے پھر بھی انکار کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: انڈونیشیا نے چین سے جدید J-10 سی لڑاکا طیارے خریدنے کا فیصلہ کر لیا
آخری فیصلے
بالآخر فوج نے ان کے بیٹے سجیِب واجد جوائے سے رابطہ کیا، جو اُس وقت امریکہ میں مقیم تھے۔ جوائے نے اپنی والدہ کو مسلسل خونریزی سے بچنے کے لیے اقتدار چھوڑنے پر آمادہ کیا۔ شیخ حسینہ نے رخصتی سے قبل قوم سے خطاب ریکارڈ کرانے کی خواہش ظاہر کی، مگر فوجی افسران نے یہ اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ انہیں صرف 45 منٹ دیے گئے، کیونکہ ہزاروں مظاہرین گنا بھابن کے دروازے پر پہنچ چکے تھے۔
نئی منزل کی طرف
شیخ حسینہ نے پھر اپنی بہن کے ہمراہ ایک فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھارت کا رخ کیا۔ یوں بنگلہ دیش میں ان کے 15 سالہ طویل اقتدار کا اختتام ہوا۔
 
				








 
  