چینی تجزیہ کار نے لائیو پروگرام میں جنرل (ر)بخشی کی درگت بنا دی
چین کے ماہر نے بھارتی جنرل کو جواب دیا
بیجنگ (ویب ڈیسک) سینٹرفارچائنا اینڈ گلوبائزیشن کے نائب صدر پروفیسر وکٹر گائو نے لائیو پروگرام میں جنرل (ر) بچشی کی درگت بنادی کہا “جنرل بخشی آپ کو تاریخ پڑھنے کی ضرورت ہے، چین پاکستان کی دوستی دنیا کی کوئی طاقت ختم نہیں کرسکتی‘‘۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی، گھریلو جھگڑے پر شوہر نے بیوی کو ذبح کر دیا،ملزم آلہ قتل سمیت گرفتار
پروگرام کا پس منظر
آج نیوز کے مطابق بیجنگ اور نئی دہلی کے درمیان ایک لائیو پروگرام میں اُس وقت ماحول شدید گرم ہوگیا جب چین کے معروف تھنک ٹینک ”سینٹر فار چائنا اینڈ گلوبائزیشن“ کے نائب صدر اور عالمی امور کے ماہر پروفیسر وکٹر گاؤ نے بھارتی ریٹائرڈ جنرل بخشی کو منہ توڑ جواب دے کر خاموش کرا دیا۔
یہ بھی پڑھیں: چینی قوم کی نشاۃ ثانیہ کو روکا نہیں جا سکتا، چینی صدر
تاریخی تنقید
پروگرام کا آغاز تو روایتی تجزیاتی گفتگو سے ہوا مگر جیسے ہی جنرل بخشی نے پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات دہرانے شروع کیے، چینی تجزیہ کار وکٹر گاؤ نے نہ صرف اُسے آڑے ہاتھوں لیا بلکہ تاریخی حقائق کے آئینے میں ایسا بےنقاب کیا کہ جنرل بخشی کو جھنجھلاہٹ میں آکر بار بار موضوع بدلنا پڑا۔
یہ بھی پڑھیں: عالمی رہنماؤں کو ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق اپنی حکمتِ عملی میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، بل گیٹس
دوستی کی بنیاد
”جنرل بخشی، آپ کو تاریخ پڑھنے کی ضرورت ہے!“ — یہ وہ جملہ تھا جس نے پورے شو کی فضا پل میں بدل دی۔ پروفیسر وکٹر گاؤ نے کہا کہ چین اور پاکستان کی دوستی کوئی وقتی مفاد نہیں بلکہ ایسی مضبوط بنیادوں پر قائم ہے جیسے پہاڑوں کی چٹانیں۔ انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا یہ دوستی مئی 2025 کو شروع نہیں ہوئی بلکہ دہائیوں پر محیط ایک قابلِ فخر رشتہ ہے۔ اسے دنیا کی کوئی طاقت ختم نہیں کرسکتی۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ آئینی بینچ نے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کو جرمانہ کر دیا
اسٹریٹیجک تعاون
پروگرام میں وکٹر گاؤ نے چین اور پاکستان کے اسٹریٹیجک اشتراک پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ دونوں ممالک مل کر جنگی طیارے بناتے ہیں، اور دفاعی تعاون اُن کے دیرینہ اعتماد کا مظہر ہے۔
دہشت گردی کا الزام
جب جنرل بخشی نے پاکستان کو دہشت گردی کا گڑھ قرار دینے کی کوشش کی تو پروفیسر وکٹر گاؤ نے برہمی سے کہا کہ دہشت گردی کا الزام لگا کر کسی ملک پر فوری چڑھائی کرنا دانشمندی نہیں بلکہ جارحیت اور غیرذمہ داری کی علامت ہے۔ عالمی برادری کو ثبوت، مکالمہ اور امن کی زبان میں بات کرنی چاہیے، نہ کہ جنگی نعروں میں۔








