فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: جسٹس جمال، جسٹس نعیم اختر نے اختلافی فیصلہ جاری کردیا

اسلام آباد میں سپریم کورٹ کا فیصلہ

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے ججز جسٹس جمال خان مندو خیل اور جسٹس نعیم اختر افغان نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کی درستگی پر تفصیلی اختلافی فیصلہ جاری کر دیا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ مریم نواز نے شاہ پورکانجراں میں ماڈل کیٹل مارکیٹ کا افتتاح کر دیا

اکثریتی فیصلہ

7 مئی کو سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے 2-5 کی اکثریت سے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کو درست قرار دیا تھا۔ حکومت کی انٹراکورٹ اپیلیں منظور کرتے ہوئے آرمی ایکٹ کو اصل شکل میں بحال کر دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جنرل عاصم منیر 2028 تک چیف آف آرمی سٹاف رہیں گے، خواجہ آصف

اختلافی فیصلہ

ڈان نیوز کے مطابق جسٹس جمال خان مندو خیل اور جسٹس نعیم اختر افغان نے 36 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ہم اکثریتی ججز کے فیصلے سے اتفاق نہیں کرتے۔

یہ بھی پڑھیں: علی امین گنڈاپور کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی درخواست،31اکتوبر تک جیل حکام سے جواب طلب

عدالت کے سامنے سوالات

اختلافی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت کے سامنے اس معاملے سے متعلق 2 سوالات تھے:

  • کیا آرمی ایکٹ کا سیکشن 2 (ون) (ڈی)، آئین کے آرٹیکل 8 (تین) (اے) سے مطابقت رکھتا ہے؟
  • کیا آئین پاکستان کے تناظر میں آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 (ون) (ڈی) کے تحت سویلینز کا ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے؟

یہ بھی پڑھیں: آئینی ترمیم کی ضرورت ؟

آرمی ایکٹ کی وضاحت

ججز نے اختلافی فیصلے میں لکھا کہ پاکستان آرمی ایکٹ ایک خصوصی قانون ہے، جو مسلح افواج کے ممبران پر لاگو ہوتا ہے۔ یہ قانون فوجی جرائم کیلئے سزا تجویز کرتا ہے تاکہ فوج کی تنظیم قائم رہ سکے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت کے ڈرون حملے، شہری اپنا سولر سسٹم بچانے کے لیے ڈنڈا لے کر چھت پر بیٹھ گیا

عمومی جرائم کے ٹرائل

مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان میں دیگر عمومی جرائم کے لئے عمومی قانون موجود ہے جو تمام افراد پر لاگو ہوتا ہے، اور عمومی جرائم کے ٹرائل عام عدالتوں میں ہوتے ہیں، جنہیں سول جرائم کہا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: محسن نقوی کی سعودی وزیر مملکت برائے داخلہ سے ملاقات، باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال

عدالت کا دائرہ اختیار

اختلافی فیصلے کے مطابق اگر کسی فوجی سے عام جرم سرزد ہو جائے تو عام عدالتیں اور فوجی عدالتیں دونوں کا دائرہ اختیار بنتا ہے مگر یہ فیصلہ عام عدالت کو کرنا ہے کہ آیا یہ کیس کو فوجی عدالت بھیجنا ہے یا نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ فلسطین و کشمیر کی قراردادوں کے نفاذ میں ناکام، اسلامی ممالک کو مؤثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت: نواز شریف

آئینی تقاضے

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ آئین کے تحت حکومت ریاست کی مالک نہیں بلکہ عوام کی ایما پر ریاست کا نظام چلانے کی مجاز ہے۔ آئین کا دیباچہ کہتا ہے کہ حکومت اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کے اندر رہ کر اپنے اختیارات کا استعمال کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں: سانگھڑ میں پوتے نے دادا کو سر پر سریا مار کر قتل کر دیا

فوجی عدالتوں کی حیثیت

اختلافی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایگزیکٹو اور عدلیہ دو الگ الگ ادارے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ فوجی عدالتوں کی تشکیل درست نہیں ہے۔ ججز نے یہ بھی لکھا کہ فوجی عدالتوں کی صدارت کرنے والے افسران کے پاس انصاف فراہم کرنے کے لئے ضروری تربیت نہیں ہوتی۔

نتیجہ

اختلافی فیصلے میں ججز نے مزید لکھا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ منتخب حکومتوں نے فوجداری عدالتوں پر اعتماد ختم کردیا ہے، جو کہ ناقابل فہم ہے۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...