فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: جسٹس جمال، جسٹس نعیم اختر نے اختلافی فیصلہ جاری کردیا

اسلام آباد میں سپریم کورٹ کا فیصلہ
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے ججز جسٹس جمال خان مندو خیل اور جسٹس نعیم اختر افغان نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کی درستگی پر تفصیلی اختلافی فیصلہ جاری کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کے خلاف 96 گھنٹوں کی لڑائی مکمل طور پر اپنے وسائل سے لڑی: جنرل ساحر شمشاد مرزا
اکثریتی فیصلہ
7 مئی کو سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے 2-5 کی اکثریت سے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کو درست قرار دیا تھا۔ حکومت کی انٹراکورٹ اپیلیں منظور کرتے ہوئے آرمی ایکٹ کو اصل شکل میں بحال کر دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: راولپنڈی اسٹیشن 1881ء میں تعمیر ہوا، ایک طرف ٹیکسلا، دوسری طرف اسلام آباد، دبے پاؤں چلتا ہوا روات اور گوجر خان کے گریبان تک بھی آن پہنچا ہے۔
اختلافی فیصلہ
ڈان نیوز کے مطابق جسٹس جمال خان مندو خیل اور جسٹس نعیم اختر افغان نے 36 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ہم اکثریتی ججز کے فیصلے سے اتفاق نہیں کرتے۔
یہ بھی پڑھیں: اداکارہ گوہر خان کے ہاں دوسرے بچے کی پیدائش متوقع
عدالت کے سامنے سوالات
اختلافی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت کے سامنے اس معاملے سے متعلق 2 سوالات تھے:
- کیا آرمی ایکٹ کا سیکشن 2 (ون) (ڈی)، آئین کے آرٹیکل 8 (تین) (اے) سے مطابقت رکھتا ہے؟
- کیا آئین پاکستان کے تناظر میں آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 (ون) (ڈی) کے تحت سویلینز کا ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے؟
یہ بھی پڑھیں: سعودی مارکیٹ میں ٹیسلا کی انٹری، الیکٹرک گاڑیوں کی دوڑ میں نیا موڑ آگیا
آرمی ایکٹ کی وضاحت
ججز نے اختلافی فیصلے میں لکھا کہ پاکستان آرمی ایکٹ ایک خصوصی قانون ہے، جو مسلح افواج کے ممبران پر لاگو ہوتا ہے۔ یہ قانون فوجی جرائم کیلئے سزا تجویز کرتا ہے تاکہ فوج کی تنظیم قائم رہ سکے۔
یہ بھی پڑھیں: عظمیٰ بخاری نے کوہستان کرپشن سکینڈل کو خیبر پختونخوا حکومت کے لیے ’’کلنک کا ٹیکہ‘‘ قرار دیدیا
عمومی جرائم کے ٹرائل
مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان میں دیگر عمومی جرائم کے لئے عمومی قانون موجود ہے جو تمام افراد پر لاگو ہوتا ہے، اور عمومی جرائم کے ٹرائل عام عدالتوں میں ہوتے ہیں، جنہیں سول جرائم کہا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب کابینہ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے امور قانون سازی و نجکاری کا اہم اجلاس، 20 سفارشات پر بحث
عدالت کا دائرہ اختیار
اختلافی فیصلے کے مطابق اگر کسی فوجی سے عام جرم سرزد ہو جائے تو عام عدالتیں اور فوجی عدالتیں دونوں کا دائرہ اختیار بنتا ہے مگر یہ فیصلہ عام عدالت کو کرنا ہے کہ آیا یہ کیس کو فوجی عدالت بھیجنا ہے یا نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جیک پال اور مائیک ٹائسن کی مڈبھیڑ: ایک یوٹیوبر کی 31 سال بڑے باکسنگ لیجنڈ کے خلاف لڑائی جو نیٹ فلکس پر براہ راست دکھائی جائے گی
آئینی تقاضے
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ آئین کے تحت حکومت ریاست کی مالک نہیں بلکہ عوام کی ایما پر ریاست کا نظام چلانے کی مجاز ہے۔ آئین کا دیباچہ کہتا ہے کہ حکومت اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کے اندر رہ کر اپنے اختیارات کا استعمال کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی خاتون کا انوکھا کارنامہ، جسم کا اہم حصہ اتنا زیادہ کھول لیا کہ نیا عالمی ریکارڈ بنا ڈالا
فوجی عدالتوں کی حیثیت
اختلافی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایگزیکٹو اور عدلیہ دو الگ الگ ادارے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ فوجی عدالتوں کی تشکیل درست نہیں ہے۔ ججز نے یہ بھی لکھا کہ فوجی عدالتوں کی صدارت کرنے والے افسران کے پاس انصاف فراہم کرنے کے لئے ضروری تربیت نہیں ہوتی۔
نتیجہ
اختلافی فیصلے میں ججز نے مزید لکھا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ منتخب حکومتوں نے فوجداری عدالتوں پر اعتماد ختم کردیا ہے، جو کہ ناقابل فہم ہے۔