فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: جسٹس جمال، جسٹس نعیم اختر نے اختلافی فیصلہ جاری کردیا

اسلام آباد میں سپریم کورٹ کا فیصلہ

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے ججز جسٹس جمال خان مندو خیل اور جسٹس نعیم اختر افغان نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کی درستگی پر تفصیلی اختلافی فیصلہ جاری کر دیا۔

یہ بھی پڑھیں: اگر مجھے موقع ملا تو میں آئی پی ایل کھیلوں گا اور میں یہ بات سب کے سامنے کہہ رہا ہوں:محمد عامر

اکثریتی فیصلہ

7 مئی کو سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے 2-5 کی اکثریت سے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کو درست قرار دیا تھا۔ حکومت کی انٹراکورٹ اپیلیں منظور کرتے ہوئے آرمی ایکٹ کو اصل شکل میں بحال کر دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت سے 1971ء کا بدلہ لے لیا: عطاء تارڑ

اختلافی فیصلہ

ڈان نیوز کے مطابق جسٹس جمال خان مندو خیل اور جسٹس نعیم اختر افغان نے 36 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ہم اکثریتی ججز کے فیصلے سے اتفاق نہیں کرتے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان سٹاک ایکسچینج نے تاریخ کی نئی بلند ترین حد کو چھو لیا

عدالت کے سامنے سوالات

اختلافی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت کے سامنے اس معاملے سے متعلق 2 سوالات تھے:

  • کیا آرمی ایکٹ کا سیکشن 2 (ون) (ڈی)، آئین کے آرٹیکل 8 (تین) (اے) سے مطابقت رکھتا ہے؟
  • کیا آئین پاکستان کے تناظر میں آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 (ون) (ڈی) کے تحت سویلینز کا ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے؟

یہ بھی پڑھیں: توڑ پھوڑ کیس: عمر ایوب اور زرتاج گل کی عبوری ضمانتوں میں توسیع

آرمی ایکٹ کی وضاحت

ججز نے اختلافی فیصلے میں لکھا کہ پاکستان آرمی ایکٹ ایک خصوصی قانون ہے، جو مسلح افواج کے ممبران پر لاگو ہوتا ہے۔ یہ قانون فوجی جرائم کیلئے سزا تجویز کرتا ہے تاکہ فوج کی تنظیم قائم رہ سکے۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب پولیس کا انوکھا کارنامہ، مردہ شخص کے خلاف دھمکیاں دینے اور قبضے کا مقدمہ درج کرلیا۔

عمومی جرائم کے ٹرائل

مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان میں دیگر عمومی جرائم کے لئے عمومی قانون موجود ہے جو تمام افراد پر لاگو ہوتا ہے، اور عمومی جرائم کے ٹرائل عام عدالتوں میں ہوتے ہیں، جنہیں سول جرائم کہا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: علی امین گنڈا پور کی گرفتاری

عدالت کا دائرہ اختیار

اختلافی فیصلے کے مطابق اگر کسی فوجی سے عام جرم سرزد ہو جائے تو عام عدالتیں اور فوجی عدالتیں دونوں کا دائرہ اختیار بنتا ہے مگر یہ فیصلہ عام عدالت کو کرنا ہے کہ آیا یہ کیس کو فوجی عدالت بھیجنا ہے یا نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترامیم کیخلاف درخواست پر الیکشن کمیشن سمیت فریقین سے جواب طلب

آئینی تقاضے

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ آئین کے تحت حکومت ریاست کی مالک نہیں بلکہ عوام کی ایما پر ریاست کا نظام چلانے کی مجاز ہے۔ آئین کا دیباچہ کہتا ہے کہ حکومت اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کے اندر رہ کر اپنے اختیارات کا استعمال کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں: رنگین مزاج ارب پتی پلے بوائے ٹرمپ نے 3 شادیاں کیں، درجنوں خواتین سے جنسی تعلق رہا

فوجی عدالتوں کی حیثیت

اختلافی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایگزیکٹو اور عدلیہ دو الگ الگ ادارے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ فوجی عدالتوں کی تشکیل درست نہیں ہے۔ ججز نے یہ بھی لکھا کہ فوجی عدالتوں کی صدارت کرنے والے افسران کے پاس انصاف فراہم کرنے کے لئے ضروری تربیت نہیں ہوتی۔

نتیجہ

اختلافی فیصلے میں ججز نے مزید لکھا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ منتخب حکومتوں نے فوجداری عدالتوں پر اعتماد ختم کردیا ہے، جو کہ ناقابل فہم ہے۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...