وہ بلا کا ملنسار، خوش اخلاق اور تابعدار انسان تھا، نہ اس کی گھٹی میں تھی ہی نہیں، کسی کے گھر کوئی غمی خوشی کی تقریب ہوتی تو میزبانی میں سب سے آگے ہوتا۔

مشتاق کی خوبیوں کا ذکر
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 184
مشتاق کی ایک خوبی اور بھی تھی کہ ایک زمانہ اس کا کلاس فیلو تھا۔ کبھی راہ چلتے ہماری کسی سے ملاقات ہوتی تو مشتاق اکثر کہتا؛ "سر! یہ میرا کلاس فیلو تھا۔" ایک روز ایسے ہی موقع پر میں نے مشتاق سے کہا؛ "مشتاق! لگتا ہے تم نے ہر جماعت میں 2سال لگائے تھے۔" وہ خوب ہنس دیتا۔ مشتاق کی ایک اور خوبی یہ تھی کہ وہ بلا کا ملنسار، خوش اخلاق اور تابعدار انسان تھا۔ نہ اس کی گھٹی میں یہ چیزیں تھیں۔ کسی کے گھر کوئی غمی یا خوشی کی تقریب ہوتی تو مشتاق میزبانی میں سب سے آگے ہوتا۔ میں نے اسے "خدائی خدمت گار" کا لقب دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: جہانگیر کرامت مستعفی ہو گئے،صدر غلام اسحاق خان بیوروکریسی کے امام تھے انہوں نے پیپلزپارٹی اور اُس کے لیڈروں کو رگید دیا مگر اُن کے ساتھ کیا ہوا؟
شیخ برادران کی دوکانیں
مشتاق کے محلے میں دو بھائیوں، شیخ شوکت اور شیخ شفقت کی پرچون کی دو کانیں تھیں جو آج بھی ہیں۔ یہ دونوں بھی بڑی محبت اور احترام سے ملتے تھے۔ ان سے محبت اور پیار کا یہ سلسلہ آج بھی قائم ہے۔ اب تو ماشاء اللہ ان کی دوکان ایک بڑا سٹور بن چکی ہے۔ لالہ موسیٰ میں مشتاق کا ایک اور جاننے والا، مصطفی پھل فروش بھی تھا۔ میں اسی سے پھل خریدتا۔ وہ زندہ دل، ہنس مکھ انسان مگر عورت کا رسیا تھا، اور اسی عادت نے اسے کئی بار کنگلا کر دیا۔ ہر بار دوست ہی اس کے کام آئے۔ ایک بار ہمارے ساتھ خنجراب بھی گیا تھا، جب تک اس کا والد زندہ تھا اس کے چلن ایسے ہی رہے۔ اب سنا ہے توبہ کر بیٹھا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ کے گاڑی پر جی ٹی روڈ پر مختلف شہروں کے اچانک دورے، صفائی کی مجموعی صورتحال کا مشاہدہ کیا
والدین کی یادیں
آج بھی لالہ موسیٰ جاؤں تو اس سے ملاقات ضروری ہے۔ کئی دھائیوں کے بعد وہ وقت یاد آتا ہے جب والدین زندہ تھے، سوچتا ہوں زندگی کتنی بے فکر، مطمئن، آسان اور کھلنڈری تھی۔ ماں باپ زندہ ہوں تو نہ کوئی فکر ہوتی ہے اور نہ کوئی فاقہ۔ ان کی دعائیں سب سے بڑا سرمایہ ہوتی ہیں۔ ماں باپ جب دنیا سے چلے جاتے ہیں تو انسان جو بات بری طرح محسوس کرتا ہے وہ دعائیں ہیں جو مشکل سے یوں نکال دیتی ہیں جیسے مکھن سے بال نکل جائے۔ والدین اللہ کی رحمت ہوتے ہیں، جب چلے جائیں تو دنیا زحمت بن جاتی ہے۔
مومن صدر کا حادثہ
اس کھلنڈری اور بے فکری زندگی میں موڑ تب آیا جب مومن صدر کا جہاز بہاول پور میں دریائے ستلج پل کے پاس "بستی لال کمال" کے قریب گر کر تباہ ہو گیا۔ یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم موڑ تھا۔ گیارہ سال کی فوجی آمریت میں قوم نے بڑے بڑے ڈرامے دیکھے۔ ملکی تاریخ کے سب سے مقبول وزیر اعظم اور لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو قانونی تاریخ کے سب سے کالے مقدمے میں پھانسی کی سزا اور پھر پھانسی لگتے بھی دیکھا۔
صدر کی کرسی پر براجمان رہنے کے لئے ضیاء نے ریفرنڈم کرایا، "کیا اسلامی ملک میں اسلامی قوانین ہونے چاہئیں؟" اس سے مضحکہ خیز سوال ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ بھٹو جسے قاتل کہا گیا، اس کی بیٹی کا وطن واپسی پر فقید المثال استقبال ہوا۔ خیر مقدم کرنے والوں کا ایک سرا ریگل چوک پر تھا تو دوسرا پرانے لاہور ایئر پورٹ پر۔ لوگوں کے سمندر کا ایسا گرم جوش خیر مقدم پاکستان کی سیاسی تاریخ نے پہلے نہ دیکھا تھا۔ یہ مومن صدر کے خلاف ریفرنڈم تھا۔ وہ ملکی تاریخ کا متنازعہ ترین صدر گزرا ہے۔ اللہ کا جزا و سزا کا اپنا انداز، اپنا نظام ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔