فوجی ڈکٹیٹر کبھی بھی کسی عوامی لیڈر کا مقابلہ نہیں کر سکے یہی تاریخ کا سبق ہے، ملکی حالات نئی کروٹ لے چکے تھے، اس زمانے میں الیکشن کمیشن صرف نام کا ہی تھا۔

مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 185
”فوجی ڈکٹیٹر کبھی بھی کسی عوامی لیڈر کا مقابلہ نہیں کر سکے یہی تاریخ کا سبق ہے۔“
ویران مزار
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
فیصل مسجد کے لان میں اس کا مزار ویرانی کی تصویر ہے۔
ایسی تو کسی جوگن کی کٹیا بھی نہیں ہوتی۔
ہوتی ہے تو یوں سر صحر ا نہیں ہوتی۔
کتاب کا اقتباس
کرسٹینا لیمب اپنی کتاب ”waiting for Allah“ میں لکھتی ہے؛
”ادھر ضیاء کی میت کو لحد میں اتارا جا رہا تھا ادھر اس کے قریب ترین لوگ اگلے صدر کے حوالے سے سازش میں مصروف تھے۔ اقتدار کا بھیانک کھیل کسی کو بھی معاف نہیں کرتا۔“
جنرل الیکشن 88
ملکی حالات نئی کروٹ لے چکے تھے۔
اسحاق خان صاحب مسند صدرارت سنبھال اور جنرل اسلم بیگ آرمی چیف بن چکے تھے۔
اس حادثے کے کچھ ہی دن بعد حکومت نے 18 نومبر 88 کو جنرل ایکشن کرانے کا اعلان کر دیا۔
اس زمانے میں الیکشن کمیشن صرف نام کا ہی تھا۔ سارا کام لوکل گورنمنٹ اور رولر ڈولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کو کرنا ہوتا تھا۔
عدلیہ کے جج صاحبان ریٹرننگ افسر ہوتے تھے۔
میرا لیے یہ پہلا موقع تھا کہ الیکشن کے انتظامات میں براہ راست شامل ہونا تھا۔
انتخابی انتظامات
غلام محمد اور دوسرے سیکرٹری یونین کونسلز کی موجودگی میں یہ کوئی مشکل نہیں تھا۔ اب سرکاری مصروفیت بڑھ جانے تھیں۔
الیکشن کے لیے 6 بڑے کام کرنے ہوتے تھے؛
- مختلف سرکاری محکموں /اداروں اور سکولوں کے سٹاف اور اساتذہ کے نام اور گریڈ وائز عہدے کی لسٹ۔
- پولنگ سکیم کی تیاری جو یہ ظاہر کرتی تھی کہ پولنگ سٹیشن کا نام، لوکیشن، پولنگ پر تعینات عملہ کی تفصیل اور وہاں کاسٹ کیے جانے والے مرد اور خواتین ووٹوں کی تعداد اور تفصیل۔
- پولنگ بیگز کی تیاری جس میں پولنگ سے متعلقہ اسٹیشنری، مہریں، ووٹر لسٹ مختلف فارمز اور بیلٹ پیپرز شامل تھے۔
- پولنگ بیگز کی تقسیم اور عملے کی ترسیل۔
- بیگز اور رزلٹ کی وصولی۔
- الیکشن نتیجہ کا اعلان۔
الیکشن کا دن
الیکشن کا دن صبح 8 بجے سے دن 11 بجے تک ہی مشکل ہوتا تھا کہ اسی دوران الیکشن کے انتظامی معاملات کے حوالے سے شکایات موصول ہوتی تھیں، جیسے کہیں ووٹر لسٹ غلط ہو گئی، بیلٹ پیپر کم ہو گئے، کوئی مہر بیگ سے نہیں ملی، عملہ کا کوئی فرد نہیں پہنچا۔ وغیرہ وغیرہ۔
جہاں تک امن و امان کا تعلق ہے الیکشن دن کے حوالے سے پزیرائیڈنگ افسر کے بڑے اختیارات ہوتے تھے اگر وہ چاہے تو چڑی بھی پر نہیں مار سکتی۔ امن و امان برقرار رکھنے کی ذمہ دار ادارے بھی موجود ہوتے تھے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔