تنخواہ داروں کو ریلیف کے لیے بچت اسکیموں اور بینک ڈیپازٹ پر ٹیکس میں 2 فیصد اضافے پر غور

اسلام آباد کی تازہ خبر
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی رضامندی سے تنخواہ دار اور دیگر شعبوں کو ریلیف فراہم کرنے کی کوشش میں ایف بی آر کمرشل بینکوں اور بچت سکیموں میں رکھے گئے ڈیپازٹس پر حاصل ہونے والی سود کی آمدنی پر ٹیکس کی شرح میں 2 فیصد اضافے پر غور کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان سے ملاقات نہ کرانے پر نیاز اللہ نیازی نے سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل عمران ریاض کے نام درخواست لکھ دی، وصولی سے انکار
نئے بجٹ میں ٹیکس کی تجاویز
نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق آئندہ مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں فائلرز اور نان فائلرز دونوں کے لئے ٹیکس کی شرح میں اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کی کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، وزیر خارجہ اسحاق ڈار
آئی ایم ایف کی حتمی منظوری
ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق آئی ایم ایف نے ابھی اس تجویز کی حتمی منظوری نہیں دی ہے۔ آئی ایم ایف نے تنخواہ دار طبقے اور دیگر شعبوں کو ریلیف فراہم کرنے کی صورت میں پیدا ہونے والے خسارے کو پورا کرنے کے لئے مختلف ٹیکس تجاویز کی تفصیلات طلب کی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ طاس معاہدے کا احترام کیا جائے: برطانوی پارلیمنٹ
سود کی آمدنی پر ٹیکس میں اضافہ
ایف بی آر کے سابق ممبر ٹیکس پالیسی ڈاکٹر محمد اقبال کے مطابق اگر اس ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا تو اس سے ان لوگوں کی زندگی مشکل ہو جائے گی جو بینکوں اور سیونگز سکیموں میں اپنی جمع شدہ رقم سے حاصل ہونے والی سودی آمدن پر منحصر ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: دماغ کی وہ بیماری جس کا شادی شدہ افراد میں خطرہ زیادہ ہوتا ہے
بینکوں پر اثرات
اسی طرح کمرشل بینکوں کو بھی نقصان ہوگا کیونکہ ان کی جمع شدہ رقوم میں کمی آسکتی ہے۔ ایک اعلیٰ عہدیدار نے دی نیوز کو بتایا کہ یہ غیر فعال آمدنی پر ٹیکس کی شرح بڑھانے کے طریقوں میں سے ایک ہے کیونکہ افراد کے ساتھ ساتھ کمپنیاں بھی کمرشل بینکوں اور بچت سکیموں میں پیسہ لگاتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کے پاس نہ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے اور نہ ہی دریاؤں کا رخ موڑنے کی، معروف بھارتی صحافی کا انکشاف
موجودہ ٹیکس کی شرح
فائلرز کے لئے سود کی آمدنی پر موجودہ ٹیکس کی شرح 15 فیصد تھی جبکہ نان فائلرز کے لئے یہ بڑھا کر 35 فیصد کر دی گئی تھی۔ آئندہ بجٹ میں فائلرز اور نان فائلرز دونوں کی غیر فعال آمدنی پر ٹیکس کی شرح میں 2 فیصد اضافہ زیر غور ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گھنٹوں میں جنگ کا خاتمہ اور اقتصادی تنازع کے خدشات: ٹرمپ کے دوسرے صدارتی دور کیسا ہوگا؟
خسارے کی تشویش
ڈاکٹر محمد اقبال نے کہا کہ سود کی آمدنی پر 15 فیصد کی شرح پہلے ہی کافی زیادہ تھی۔ اگر اس میں اضافہ کیا جائے تو یہ افراد کی زندگیوں پر منفی اثر ڈالے گا۔
نتیجہ
اگر یہ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا تو یہ بینکوں کی جمع شدہ رقوم میں کمی کا باعث بن سکتا ہے اور افراد کی معاشی حالت کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت کو سوچنا ہوگا کہ وہ مزید مشکلات پیدا کرنے کے بجائے حل کیسے نکال سکتی ہے۔