ساری عمر ابا جی کو تنخواہ امی جی کے ہاتھ میں دیتے دیکھا اپنی ضرورت کیلئے بھی انہی سے پیسے لیا کرتے، سوچ رکھا تھا شادی کے بعد میں بھی ایسا ہی کروں گا۔

مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 186
الیکشن 88 کی تیاری
الیکشن 88 کی تیاری اور اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لئے میں صبح ہی تحصیل ہیڈ کواٹر زکھاریاں روزانہ جاتا تھا۔ وہاں میرے دوسرے کولیگ بھی پہنچ جاتے اور ہم سب مل کر اپنے اپنے حلقے کی پولنگ سکیم تیار کرتے اور دوسرے کام بھی انجام دیتے تھے۔ میرے لئے یہ بڑا لرننگ تجربہ تھا۔ 88 میں سرکاری افسران اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی بڑی حد تک غیر جانبداری سے ادا کرتے تھے۔ جانبداری والا عنصر ایک دھائی بعد ایسا آیا کہ اب غیر جانبداری کم کم ہی دیکھنے میں ملتی ہے۔ 88 کے انتخابات نے مجھے بڑی حد تک انتخابی معاملات میں بھی آگاہی دے دی تھی۔
شاہد حلوائی اور سعید بہاری
ادریس بھائی ایک روز مجھے مین بازار لالہ موسیٰ لے گئے اور ہم مٹھائی کی ایک دوکان پر رکے۔ وہاں بیٹھا پہلوان نما آدمی بڑے تپاک سے ملا۔ یہ شاہد حلوائی تھا، ادریس بھائی کا بچپن کا دوست۔ انہوں نے ہمیں برفی پیش کی، جو بہت لذیز تو تھی ہی، مگر وہ ان کے خلوص سے بھی لبریز تھی۔ ہم پھر مل کر سامنے ایک چوبارے پر چلے آئے جہاں چھوٹے قد کے سعید صدیقی المعروف "سعیدبہاری" بیٹھے تھے۔ پیشے کے وکیل ادریس بھائی کے ایک اور یار غار، یہ نہایت پرخلوص انسان ہیں، محبت کرنے اور محبتیں سمیٹنے والے۔ ان کی انکم ٹیکس کی وکالت خوب چلتی ہے۔ وہ دریا دل میزبان ہیں، اپنے ہاتھ سے بھی ہر قسم کے گوشت کی لذیز کڑاہی بنا کر اس میں اپنے خلوص کا تڑکا لگا دیتے ہیں۔ ان سے پیار اور دوستی کا تعلق آج بھی ویسا ہی ہے جیسا 30 سال پہلے تھا۔ اب تو یہ اور ادریس بھائی سمدھی بھی ہیں۔
ویک اینڈ لاہور
میں ہر ویک اینڈ پر لاہور چلا جاتا اور سوموار والے دن ریل کار سے لالہ موسیٰ پہنچ جاتا۔ ایک بار ادریس بھائی کے ساتھ ان کی کار میں لاہور آیا اور دوبارہ ان کے ساتھ کار میں بیٹھنے سے توبہ کر لی کہ وہ موٹر ایسے چلاتے کہ ساتھ بیٹھے مسافر کی جان ہی بنی رہتی تھی۔ ساری تنخواہ امی جی کو دیتا اور وہ اس میں سے میری ضرورت کے مطابق مجھے پیسے دے دیتی تھیں۔ میں نے ساری عمر ابا جی کو تنخواہ کے پیسے امی جی کے ہاتھ میں دیتے دیکھا اور اپنی ضرورت کے لئے بھی انہی سے پیسے لیا کرتے تھے۔ امی جی اسی تنخواہ سے مہینے بھر کا خرچہ کرتی تھیں۔ میں نے سوچ رکھا تھا کہ شادی کے بعد میں بھی ایسا ہی کروں گا۔
این سی آر ڈی اسلام آباد
اگست کے آخری دنوں میرے والدین نے میری شادی کی تاریخ مقرر کر دی۔ 28 اکتوبر 88۔ ادھر شادی کے دن قریب آ رہے تھے، تیاریاں عروج پر تھیں ادھر سرکار نے مجھے این سی آر ڈی (نیشنل سنٹر برائے دیہی ترقی) اسلام آباد ایک ہفتے کی تربیت کے لئے نامزد کر دیا۔ نوکری میں نخرہ نہیں ہوتا۔ مقررہ تاریخ پر اسلام آباد پہنچ گیا جہاں مجھے 23 اکتوبر تک رہنا تھا۔ اسلام آباد میں میں اپنے ہم نام پھوپھی زاد بھائی "شہزاد یوسف" کا مہمان بننے والا تھا۔ ان کے والد این ڈی یوسف مرحوم ڈین یونیورسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد رہے۔ انکل جتنے خوبصورت تھے اتنے ہی کمال انسان بھی تھے۔(ان کی خوبصورتی کی وجہ سے وہ یوسف ثانی کے نام سے جانے جاتے تھے۔ یہ پر خلوص اور شاندار انسان "تھری کیسل" سیگریٹ کے شوقین تھے۔ اُس دور میں شاہانہ سیگریٹ برانڈ تھا۔) یہ وہی میرے کزن ہیں جن کی شادی پر والد نے شرکت کے دعوت نامے کے جواب میں ساغر کا شعر لکھا تھا؛
"بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی۔"
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔