وہ مسلم ملک جو ترکی اور اسرائیل میں خاموشی سے سفارتکاری کر رہا ہے۔
آذربائیجان کی نئی کوششیں
باکو (ڈیلی پاکستان آن لائن) نگورنو کاراباخ پر دوبارہ قبضے کے بعد خطے میں اثر و رسوخ بڑھانے والے آذربائیجان نے ترکی اور اسرائیل کے درمیان پس پردہ سفارتی رابطے شروع کیے ہیں تاکہ شام میں جاری کشیدگی کو کم کیا جا سکے۔ آذربائیجان کے اعلیٰ خارجہ پالیسی مشیر حکمت حاجییف نے تصدیق کی ہے کہ باکو میں ترکی اور اسرائیل کے درمیان تین سے زائد مذاکرات ہو چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جمشید دستی کا نااہلی کے بعد ردعمل آ گیا
ترکی اور اسرائیل کے سیکیورٹی خدشات
خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ترکی اور اسرائیل دونوں شام میں اپنے اپنے سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر فعال ہیں۔ شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خلاف ترکی کی حمایت سے اسرائیل کو سیکیورٹی خطرات لاحق ہوئے، جس کے بعد اسرائیل نے متعدد فضائی حملے کیے تاکہ اسلحہ ان قوتوں کے ہاتھ نہ لگے جنہیں وہ شدت پسند سمجھتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں نیا ریکارڈ قائم، 100 انڈیکس ایک لاکھ 62 ہزار پوائنٹس کی حد بھی عبور کر گیا
آذربائیجان کا کردار
آذربائیجان، جو ترکی کا قریبی اتحادی ہے اور اسرائیل کے ساتھ توانائی و دفاع کے شعبے میں مضبوط تعلقات رکھتا ہے، اب ان دونوں ممالک کے درمیان سفارتی پل کا کردار ادا کر رہا ہے۔ آذری حکام کا کہنا ہے کہ ان کی کوشش ہے کہ ترکی اور اسرائیل شام سے متعلق ایک ایسا ماڈل تیار کریں جس میں دونوں کے تحفظات کا خیال رکھا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: راولپنڈی میں ’’دھی رانی پروگرام‘‘ کے تیسرے فیز کی تقریب، صوبائی وزراء کی شرکت، 84 مستحق جوڑوں کی اجتماعی شادی
شام کی نئی قیادت سے روابط
آذربائیجان نے شام کی نئی قیادت سے بھی روابط قائم کر رکھے ہیں، اور یہی روابط اس کی ثالثی کو مزید مؤثر بنا رہے ہیں۔ باکو میں بین الاقوامی تعلقات کے ایک ادارے کے سربراہ فرید شافییف کے مطابق، ترکی خاص طور پر شمالی شام میں کرد گروپوں کی موجودگی کو اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے، جبکہ اسے دمشق کے گرد بھی اثرورسوخ بڑھانے میں دلچسپی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ای پی این ایس کا حکومت پنجاب کی جانب سے پیپرا رولز میں ترمیم پر شدید تشویش کا اظہار
ترکی اور اسرائیل کے درمیان تناؤ
ترکی اور اسرائیل کے تعلقات حالیہ دنوں میں غزہ کی جنگ کے باعث شدید تناؤ کا شکار ہو چکے ہیں۔ ترکی نے اسرائیل سے تجارتی تعلقات معطل کر دیے ہیں، اگرچہ کچھ اپوزیشن رہنما دعویٰ کرتے ہیں کہ آذری تیل اب بھی اسرائیل جا رہا ہے، جس کی تردید ترکی کی وزارت توانائی نے کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات نے پاک فوج کے قافلے پر حملے کی شدید مذمت
آذربائیجان کی تیل کی ترسیل پر خاموشی
آذربائیجان کا کہنا ہے کہ جنگِ کاراباخ کے دوران اسرائیل نے اسے اسلحہ اور سفارتی مدد فراہم کی، لیکن تیل کی ترسیل پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ ایک بار تیل سمندری جہازوں پر چڑھ جائے تو اس کی آخری منزل پر کوئی اختیار نہیں رہتا۔
علاقائی حیثیت اور اسٹریٹجک اقدامات
ماہرین کے مطابق آذربائیجان کا یہ کردار خطے میں اس کی بڑھتی ہوئی سیاسی اور سفارتی حیثیت کو ظاہر کرتا ہے، خاص طور پر کاراباخ کی مکمل واپسی کے بعد جب وہ اب آرمینیا کے ساتھ تعلقات کی بہتری کی بھی کوشش کر رہا ہے۔ ترکی اور اسرائیل کے درمیان ممکنہ تصادم کو روکنے کی کوشش آذربائیجان کے لیے ایک سٹریٹجک اقدام ہے، کیونکہ یہ دونوں اس کے اہم اتحادی ہیں۔








